اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر یہ منطق بھی دی جاتی ہے کہ معاشی ترقی اور استحکام کی کنجی ریاست کے مجموعی سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے ۔جو ریاست کا نظام سیاسی انتہا پسندی ، سیاسی محاذ آرائی ، تناؤ یا سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں بہتر سے بہتر معاشی سطح پر اختیار کی جانے والی پالیسیاں بھی ریاستی نظام کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتیں ۔جب بھی ہماری قیادت معاشی ترقی اور استحکام کی بات کرتی ہے یا میثاق معیشت پر توجہ دینے کی بات ہوتی ہے تو ہم سیاست سے جڑے مسائل،سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تنہائی کے پہلوؤں کو نظرانداز کرکے معیشت کی ترقی کا علاج تلاش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اس وقت بطور ریاست پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں معیشت خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے وہیں ہمیں سیاسی تقسیم کے تناظر میں بڑھتی ہوئی سیاسی خلیج بھی دکھائی دے رہی ہے ۔اسی تناظر میں سیکیورٹی اور دہشت گردی کے بھی مسائل بڑھ رہے ہیں ۔لیکن حکومت کی سطح پر دیکھیں تو ہمیں ایسے ہی لگتا ہے کہ ان کو یا تو ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی نظر آتی ہے یا ان کو واقعی حالات کا ادراک نہیں یا پھر وہ حالات کی سنگینی کو لوگوں سے چھپا کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی رکھتے ہیں ۔
اس وقت بھی قومی سطح پر یہ ہی تاثر دیا جارہا ہے کہ سب کچھ اچھا ہے اور اگلے چند برسوں میں ہم اپنے سیاسی ،معاشی اہداف بھی حاصل کرلیں گے اور ملک ترقی کے عمل میں بہت آگے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ بحران محض حکمران طبقات تک محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہم سب ہی جذباتیت کی بنیاد پر معاملات کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔ حکمرانی کا بحران آج جہاں کھڑا ہے اس کی بنیادی وجہ جہاں ہماری ترجیحات سے جڑا عدم شفافیت کا نظام ہے وہیں ٹھوس یا جدید بنیادوں پر اپنے مسائل کی درجہ بندی نہ کرنا اور غیر ضروری معاملات میں الجھ کر ریاست کے نظام کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بن گیا ہے ۔
ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ریاست سے جڑے عام ، کمزور اور محروم طبقات کس آنکھ سے حکمرانی کے مجموعی نظام کو دیکھ رہے ہیں اور اس بارے میں ان کے خدشات یا تحفظات کیا ہیں ۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ہوتا ہے جب ہم حکمرانی کے مجموعی نظام کو طبقاتی بنیادوں پر چلا رہے ہوں اور ہماری ترجیحات عام افراد نہیں بلکہ معاشرے کے مخصوص طاقت ور طبقات ہوتے ہیں ۔یہ ہی وہ طرز عمل ہے جو معاشرے میں حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کے اعتماد یا بھروسہ کو کمزور کرکے ان میں پہلے سے موجود خلیج کو اور زیادہ گہرا کرتا ہے ۔
معیشت کی ترقی کے تمام تر دعوے اس وقت بے معنی لگتے ہیں جب داخلی اور خارجی سطح پر مالی سرمایہ کاری کے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہوں اور لوگ معیشت کی بگڑتی صورتحال کے باعث اپنا سرمایہ باہر کے ملک منتقل کررہے ہیں یااپنے بچوں سمیت اس ملک کو ہی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔آئی ایم ایف کے ماتحت یا اس کی مدد سے چلنے والی معیشت اور اس کے عوض ان کی طرف سے معاشی اور سیاسی ڈکٹیشن نے بھی سیاسی اور معاشی خود مختاری پر سنجیدہ سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔
آئی ایم ایف مسلسل پاکستان کے حکمران طبقات پر مختلف نوعیت کی معاشی پالیسیوں یا ادارہ جاتی اصلاحات پر زوردے رہا ہے اور ان کے بقول ان اصلاحات پر عمل نہ کرکے پاکستان کی معیشت درستگی کی طرف نہیں جاسکتی ۔لیکن طاقت ور حکمران طبقات کے سامنے سیاسی ،معاشی یا ادارہ جاتی سطح کی ترقی کا ایجنڈا نہیں ہے بلکہ وہ اس اقتدار کے کھیل میں محض اپنی ذاتی سیاست یا ذاتی معیشت پر توجہ دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں آگے کی طرف لے کر جانے کے بجائے یا تو پیچھے کی طرف لے کر جارہا ہے یا محدود طاقت ور طبقات کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دے رہا ہے ۔قرضوں یا سودکے سہارے چلائی جانے والی معیشت کے تناظر میں اپنی داخلی معیشت کی ترقی کا عملی خواب کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔جب کہ دوسری طرف ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر حکمران طبقات کسی بھی انصاف کے نظام میں جوابدہ نہیں ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ عوام کی تکالیف کیا ہیں اور وہ عملی طور کن مسائل سے دوچار ہیں اور ا ن کا حل کیسے ممکن ہوگااس کا جواب حکمران طبقات کے پاس نہیں ہے ۔عام اور کمزور آدمی کو مستقل بنیادوں پر معاشی سطح پر مستحکم کرنے کے بجائے ہم نے ان کو خیراتی منصوبوں پر لگا کر ان کی سفید پوشی کا بھی مذاق اڑایا ہے ۔کل ہی ایک محفل میں ایک اہم فرد نے بتایا کہ لاہور ہی میں بجلی چوری ایسے لوگ گرفتار ہوئے ہیں جو معاشی حیثیت میں کمزور تھے اور تفتیش کی صورت میں انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ ہم مہنگے بجلی کے بل ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور اسی بنیاد پر ہم بجلی چوری کرتے ہیں ۔
ادھر پاکستان میں حکمران طبقات کی اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کھلی جنگ بھی جاری ہے اور سیاسی مخالف کو ملک کی سیکیورٹی تھریٹ یا ان کی جماعت کو سیاسی پابندی کا بھی سامنا ہے۔ مخالفین کو واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے خود کو علیحدہ کرنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔اس صورتحال میں سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ بڑھنے کے امکانات اور زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ایسے میں جو معیشت پہلے سے بدحالی یا جمود کا شکار ہے اس کی ترقی کا امکان اور زیادہ محدود نظر آتا ہے ۔کیونکہ داخلی اور خارجی سطح پر سرمایہ کار ان حالات میں سرمایہ کرنے کو اپنا مفاد نہیں سمجھتے اور جو کچھ ان سرمایہ کاروں کے ساتھ کاروبار کی سطح پر ادارہ جاتی سطح پر ہورہا ہے اس سے بھی سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں ۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست اور معیشت کی سطح پر پھیلنے والی بے چینی کیسے حکمرانی کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ہم اپنے بیانیہ کی بنیاد پر داخلی سطح پر لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں یا ان سے حقایق چھپا سکتے ہیں لیکن آج کی گلوبل دنیا اور میڈیا کی جدید ترقی کے دور میں جو کچھ عالمی اداروں اور ان کی رپورٹس میں پاکستان کی سیاست ،معیشت اور سیکیورٹی سمیت گورننس کے بارے میں اعداد وشمار کی بنیاد پر جو بولا اور لکھا جارہا ہے اس سے کیسے ہم اپنی آنکھ بند کرسکتے ہیں۔ جب معیشت جمود کا شکار ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں سرمایہ کار بھی مایوس ہوتا ہے اور مجموعی معاشی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔آمدنی اور اخراجات میں پیدا ہونے والا عدم توازن لوگوں کے لیے اور زیادہ مشکلات کو پیدا کرکے ان کو پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ایسے میں قومی سطح پر سیاست کی لڑائی اور اداروں کے درمیان باہمی کشمکش میں مسائل اور زیادہ سنگینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔
لیکن ہم سیاسی ٹکراؤ کو کم کرنے اور مفاہمت کے امکانات کو پیدا کرنے کے بجائے اپنی پالیسیوں ،طرز عمل اور اقدامات سے مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنا رہے ہیں ۔خاص طور پر اداروں پر بڑھتی ہوئی سیاسی تنقید نے حالات کو اور زیادہ الجھا دیا ہے ۔ایک ایسے موقع پر جب حکمران طبقہ خود ایک بڑے سیاسی بوجھ کی شکل اختیار کرچکا ہو اور اس کے پاس مسائل کا حل بھی نہ ہو اور مسائل کے حل کی ساری ذمے داری بھی اسٹیبلیشمنٹ پر ڈال دی جائے تو پھر بہتر نتائج کو پیدا کرنا اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ خود مسائل کے حل کے بجائے انھیں بگاڑنے کے کھیل کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ایسے میں مسائل کیسے حل ہوںگے خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔