بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں نے ویزا بھی اپلائی کر دیا ہے، بابر اعوان

سینیئر قانون دان بابر اعوان نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف مظالم جاری رہے تو انکے بیٹے واپس ضرور آئیں گے اور بیٹوں نے پاکستان آنے کے لیے ویزا بھی اپلائی کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ بیٹوں سے خوف یہ ہے کہ اگر بات کروائی گئی تو وہ واپس آ جائیں گے اور میں آپ کے خوف کو تقویت دیتا ہوں، اگر یہ مظالم جاری رہے تو وہ واپس ضرور آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے دونوں بیٹے سیاست میں نہیں ہیں اور قانون یہ کہتا ہے کہ بیٹوں سے ہفتے میں کم از کم ایک دفعہ بات کروائی جائے، مگر مہینوں سے کوئی بات نہیں کروائی گئی۔

بابر اعوان نے کہا دو وزراء نے بیان دیا ہے کہ 8 فروری تک بانی پی ٹی آئی کو کسی سے ملنے نہیں دیا جائے گا، حالانکہ ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں۔ قانون کے مطابق یہ دو جرائم میں آتا ہے، ایک یہ کہ اختیار نہیں اور دوسرا یہ کہ یہ دستور کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیل کو چلانے اور ریگولیٹ کرنے کا اختیار صرف دو لوگوں کے پاس ہوتا ہے، ایک وہ عدالت جو قیدی کو بھیجتی ہے اور جس کی کسٹڈی ہوتی ہے اور دوسرا جیل کا انچارج۔ ان کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزراء نے کس حیثیت میں ملاقات نہ کرانے کا کہا ہے۔

سینیئر قانون دان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ سنا تھا کہ کسی کو اٹھا کر بند کر دیا جاتا ہے اور پھر ملاقات کے لیے شرائط بتائی جاتی ہیں، اسی طرح رہائی کی بھی شرائط دی جاتی ہیں۔ فارم 47 کی حکومت کا یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

بابر اعوان نے کہا یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی کو سیاسی گفتگو نہیں کرنے دی جائے گی، حالانکہ ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو نواز شریف اور شہباز شریف کی سیل کے اندر تصاویر موجود تھیں اور نیب تحویل اور جیل کے اندر 50، 50 افراد کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ ڈر صرف بانی پی ٹی آئی سے لگتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ’’ریلیز فار عمران خان‘‘ کے نام سے ایک گلوبل موومنٹ بن چکی ہے، کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ کوئی گفتگو نہیں کر سکتا۔

بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری سیاست کرنے والی ایک دو پارٹیاں ہیں، باقی یا تو طاقتور حلقوں کی سیاست کرتی ہیں یا مذہبی، علاقائی اور لسانی سیاست۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی، علاقائی یا لسانی بات کرنے پر کہیں کوئی پابندی نہیں، تو قومی سیاست میں اپنے علاقے کی بات کرنے پر بھی کوئی جواب موجود نہیں۔

Similar Posts