فلسطین میں نئی یہودی بستیوں کا قیام؛ کینیڈا کی اسرائیلی فیصلے کی مخالفت

یورپ سمیت دیگر ممالک کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ کینیڈین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور دو ریاستی حل کے امکانات متاثر ہوں گے۔

کینیڈا کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں اسرائیلی حکومت کے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیوں کے قیام کے منصوبے کی مذمت کی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہودی آبادی میں مسلسل توسیع عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس کے اثرات امن معاہدے کے نکات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔

بیان کے مطابق اسرائیلی حکومت کا یہ فیصلہ اس تنازعے کے دو ریاستی حل کے امکانات کو بھی کمزور کرے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں میں توسیع کی منظوری دی تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی سربراہی میں سیکیورٹی کابینہ نے 19 نئی یہودی بستیوں کے قیام کی منظوری دی۔ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر بیزلیل سموترچ نے اس اقدام کو فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا تھا۔

الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کی موجودہ حکومت کے دور میں مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں اور آؤٹ پوسٹس کی تعداد میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 2022 میں 141 سے بڑھ کر اب 210 ہو چکی ہے۔

اس وقت اسرائیل کی تقریباً 77 لاکھ یہودی آبادی میں سے قریباً 10 فیصد ان بستیوں میں رہائش پذیر ہیں، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ بستی اور آؤٹ پوسٹ کے درمیان فرق صرف قانونی حیثیت کا ہے حالانکہ عالمی قانون کے تحت یہ دونوں غیر قانونی ہیں۔

اسرائیلی قانون کے مطابق وہ رہائشی علاقے جو اسرائیل کی باقاعدہ منظوری کے بغیر تعمیر کیے جاتے ہیں، انہیں آؤٹ پوسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ اکثر فلسطینیوں کی نجی ملکیت والی زمین پر زبردستی قبضہ کر کے بنائی جاتی ہیں۔ شروع میں یہ محض چند خیموں، کاروانوں یا کچے مکانات پر مشتمل ہوتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ انہیں پکا کر لیا جاتا ہے۔

جبکہ وہ رہائشی علاقے جنہیں اسرائیلی حکومت کی باقاعدہ منظوری، منصوبہ بندی اور اجازت سے تعمیر کیا جاتا ہے، بستی (سیٹلمنٹ) کہلاتے ہیں۔ یہ بستیاں ریاستی زمین پر بنائی جاتی ہیں۔

عالمی عدالت انصاف نے جولائی 2024 میں اپنے تاریخی فیصلے میں اسرائیلی قبضے، آبادکاری اور الحاق کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی موجودگی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔

بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے ایک سال کے اندر قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم اسرائیل نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا۔

الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کی نئی منظور شدہ بستیاں پورے مغربی کنارے میں پھیلی ہوئی ہیں، جو گنجان آباد فلسطینی علاقوں کے قریب واقع ہیں۔ پیس ناؤ نامی اسرائیلی نگرانی گروپ کے مطابق یہ بستیاں نابلس، رام اللہ، الخلیل، بیت لحم اور یریحو سمیت کئی علاقوں میں فلسطینی دیہاتوں کے قریب قائم کی جا رہی ہیں۔

اسرائیل نے جنین کے قریب غنیم اور قادم جیسی بستیوں کو بھی دوبارہ منظور کیا ہے، جو 2005 میں انخلا کے منصوبے کے تحت ختم کر دی گئی تھیں۔ وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ کے مطابق 19 میں سے پانچ بستیاں پہلے سے موجود تھیں مگر انہیں قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی۔

آبادکاری میں اضافے پر یورپی ممالک سمیت عالمی برادری نے تنقید کی ہے اور اسے دو ریاستی حل کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، جبکہ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے وزرا کھلے عام فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ دریائے اردن کے مغرب میں کسی فلسطینی ریاست کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے دوران مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا اور تب سے یہ علاقے اسرائیلی قبضے میں ہیں۔

Similar Posts