تربیتِ اولاد

 (پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل (آفیسر، سروسز اسپتال، کراچی)

تربیت کی اہمیت

اولاد کی تربیت انسان سازی کا ایک حساس، مشکل اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ بچے وہ آئینہ ہوتے ہیں جو والدین کی عادتوں، ماحول اور کردار کو جلدی قبول کرتے ہیں۔ اگر ان کی شخصیت مضبوط، اخلاقی اور باشعور خطوط پر تعمیر ہو جائے تو وہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ معاشرے کے لیے روشنی اور خیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اسی لیے تربیت صرف نصیحت نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں محبت، نظم، اصول اور حکمت سب شامل ہوتے ہیں۔

 ابتدائی شخصیت کی تعمیر

٭    ڈر کے بجائے اعتماد

چھوٹے بچوں کو جن بھوت یا خوف ناک چیزوں سے ڈرانا ایک غلط اور نقصان دہ عادت ہے۔ اس سے ان کے دل میں بزدلی، بے اعتمادی اور خوف بیٹھ جاتا ہے۔ ڈر سے پلنے والے بچے بڑے ہو کر بھی جلد گھبرا جاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ والدین بچوں کو ہمت، حوصلہ اور ذہنی مضبوطی دیں۔ اسی طرح باپ کے نام سے ڈرانا بھی غلط ہے۔ ماں باپ دونوں بچوں کے لیے محبت اور اعتماد کا مرکز ہوں، خوف کا ذریعہ نہیں۔

٭    سادگی اور توازن

بچوں میں سادگی اور توازن پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ لڑکوں کو سفید اور باوقار لباس کی رغبت دینا ان کی شخصیت کو متوازن بناتا ہے۔ لڑکیوں کو بچپن سے زیادہ زیور پہننے یا نمائش کی عادت نہ ڈالیں۔ سادگی بچوں کے دل میں عاجزی اور وقار پیدا کرتی ہے جب کہ دکھاوا ان کی شخصیت کو غیرحقیقی بنا دیتا ہے۔

٭    صحبت کا انتخاب

بچے اپنی صحبت سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اگر ان کے اردگرد بدزبان، جھگڑالو یا گندی عادتوں والے بچے ہوں تو وہ بھی انہی راستوں پر چلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ نیک، ملنسار اور باادب بچوں میں اٹھتے بیٹھتے ہوں تو انہی اخلاق کو اپنا لیتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے دوستوں، ماحول اور بیٹھک پر گہری نظر رکھیں۔

اخلاقی اصول اور رویّے

٭    سخاوت اور ہمدردی

بچوں میں سخاوت پیدا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ہاتھ سے غریبوں کو کھانا، کپڑے یا صدقہ دینا سکھایا جائے۔ اسی طرح بہن بھائیوں میں چیزیں بانٹنے کی عادت ڈالیں۔ یہ تربیت انہیں خودغرضی سے بچا کر وسیع دل اور نرم مزاج بناتی ہے۔ ایسے بچے بڑے ہوکر معاشرے میں خیر بانٹنے والے بنتے ہیں۔

٭    غلطیوں کی وضاحت

اگر کوئی بری بات بتانی ہو تو کسی شخص کو نام لے کر برا نہ کہیں۔ صرف رویّے کی خرابی سمجھائیں تاکہ بچے انسانوں سے نفرت نہ سیکھیں بلکہ برائی سے نفرت کرنا سیکھیں۔ یہ طرزِتربیت انہیں منفی سوچ سے بچاتا ہے اور شخصیت کو متوازن رکھتا ہے۔

٭    اخلاقی بیماریوں سے بچاؤ

بچوں میں جھوٹ، حسد، غصہ، چوری، لالچ، چغلی، دھوکا یا فضول باتوں سے نفرت پیدا کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ یہ عادتیں دل اور زندگی دونوں کو برباد کرتی ہیں۔ اگر بچہ کبھی غلطی کرے تو فوراً پیار اور نرمی سے سمجھائیں تاکہ غلط بات دل میں جم نہ جائے۔ بار بار دہرائی گئی خرابیوں پر مناسب سرزنش ضروری ہے تاکہ بچہ جان لے کہ برائی کے نتائج ہوتے ہیں۔

٭    مناسب سزا کا اصول

جب بچے نقصان کریں، کسی کو ماریں یا کوئی غیرمناسب حرکت کریں تو مناسب اور ہلکی سزا دینا ضروری ہے۔ تربیت صرف پیار سے نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات حد مقرر کرنے کے لیے ڈسپلن بھی ضروری ہے۔ البتہ سزا تذلیل یا سختی میں نہیں بدلنی چاہیے۔ مقصد یہ ہے کہ بچے غلطی کا وزن محسوس کریں، اذیت نہیں۔

دینی تربیت کے بنیادی نکات

٭    نماز اور قرآن کا آغاز

سات سال کی عمر کے بعد بچوں کو نماز کی عادت ڈالیں۔ یہ عمر تربیت کا بہترین وقت ہے کیوںکہ بچہ حکم کو دل سے قبول کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک کی ابتدائی تعلیم بچے کے دل میں نور، اخلاق اور سکون پیدا کرتی ہے۔ دینی تربیت بچے کی شخصیت کو رحم، خیر اور عزت نفس دیتی ہے۔

٭    غیراخلاقی مواد سے دوری

عشق و محبت کی کہانیاں، بے حیائی والے ناول، وقت ضائع کرنے والے رسالے یا موبائل فون پر فحاش مواد بچوں کے ذہن پر بہت منفی اثر چھوڑتا ہے۔ آج کے دور میں موبائل، ویڈیو گیمز، ٹک ٹاک اور غیر ضروری اسکرین ٹائم بچوں کی تربیت کے لیے سب سے بڑے خطرات بن چکے ہیں۔ والدین کی نگرانی اور حد بندی بہت ضروری ہے۔

٭    مناسب کھیل اور تفریح

بچوں کو اسکول یا مکتب کے بعد کچھ دیر کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ذہن تازہ ہو۔ لیکن کھیل ایسا ہو جس میں بے حیائی، تشدد یا جسمانی نقصان کا خطرہ نہ ہو۔ کھیلنے والے بچے صحت مند، خوش مزاج اور متوازن شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔

گھریلو آداب اور عملی زندگی

٭    اپنے کام کا خود عادی ہونا

بچوں کو اپنا بستر خود بنانے، چیزیں سنبھالنے، کتابیں رکھنے اور اپنے روزمرہ کے چھوٹے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ یہ عادتیں انہیں ذمہ دار اور خودمختار بناتی ہیں۔ والدین کا مقصد بچوں کو خدمت کی عادت دینا نہیں بلکہ خود کفالت سکھانا ہے۔

٭    لڑکیوں کی عملی تیاری

لڑکیوں کو گھریلو کام، سینا پرونا، کھانا پکانا، صفائی اور بچت جیسے امور سکھانا ضروری ہے۔ یہ ہنر مستقبل میں ان کے گھر کو مضبوط، پرسکون اور منظم بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ تربیت کا مقصد انہیں مجبور کرنا نہیں بلکہ زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔

٭    ہنر اور کردار سازی

ہر بچے کو ایسا ہنر سکھائیں جس سے وہ ضرورت پڑنے پر روزگار کما سکے۔ چاہے وہ تکنیکی ہنر ہو، دست کاری، کمپیوٹر کام، کاروبار یا کسی فن میں مہارت۔ یہ تربیت بچوں کو مستقبل میں مضبوط اور بااعتماد بناتی ہے۔

٭    عاجزی اور سنجیدگی

بچوں کو چلنے، بولنے، بیٹھنے اور بڑوں کے سامنے پیش آنے کا سلیقہ سکھانا انتہائی ضروری ہے۔ تکبر، شیخی یا بدتمیزی شخصیت کو بگاڑتی ہے۔ عاجزی انسان کے وقار کو بڑھاتی ہے اور دلوں میں جگہ بناتی ہے۔

 نفسیاتی اور جذباتی تربیت

٭    ضد اور خواہشات پر قابو

ہر ضد پوری کرنا بچوں کو خودغرض اور بے صبر بنا دیتا ہے۔ بچوں کو یہ سکھائیں کہ زندگی میں ہر خواہش فوری پوری نہیں ہوتی۔ انکار کرنا بھی تربیت کا حصہ ہے۔ ضد ٹوٹے گی تو صبر اور برداشت پیدا ہوگا۔

٭    چیخنے سے روکنا

بچوں کو چیخ کر بات کرنے، شور مچانے یا غصے کا اظہار کرنے سے روکا جائے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو نرم، شائستہ اور متوازن اندازِ گفتگو کی عادت ڈالنا بہتر ہے تاکہ بڑی ہو کر یہ عادت پختہ رہے۔

٭    اچھی بات پر تعریف

جب بچہ کوئی اچھی حرکت کرے، کسی کی مدد کرے، صفائی سے کام کرے یا ادب دکھائے تو اس کی تعریف ضرور کریں۔ تعریف بچوں کے دل میں خوشی، حوصلہ اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ یہ تربیت کا مثبت پہلو ہے۔

 تربیت — زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ

بچے وہ پھول ہیں جو توجہ، محبت، نظم و ضبط اور اخلاق کے پانی سے پروان چڑھتے ہیں۔ تربیت ایک دن یا ایک نصیحت سے مکمل نہیں ہوتی، یہ مستقل مزاجی، برداشت، حکمت اور مثالی کردار کا مجموعہ ہے۔ اگر والدین درست سمت دے دیں تو بچے نہ صرف خاندان بلکہ معاشرے کے لیے روشنی بن جاتے ہیں۔

یہ اصول والدین کے لیے وہ بنیادیں فراہم کرتے ہیں جن پر ایک مضبوط، باکردار، بااعتماد اور شائستہ نسل کی تعمیر ممکن ہے۔ تربیت میں توازن، محبت، حکمت، حدود اور تحفظ سب شامل ہیں۔ یہی وہ تربیت ہے جو آنے والی نسلوں تک روشنی منتقل کرتی ہے۔

Similar Posts