طورخم بندش؛ ناقص ادویات کے استعمال سے مریض خطرات کا شکار: افغان میڈیا

افغانستان میں ادویات کی قلت سے مریض اسمگل شدہ ادویات استعمال کرنے پرمجبور ہیں۔ بچوں، حاملہ خواتین اور دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کی زندگیاں شدید خطرے میں پڑگئی ہیں۔ افغان جریدے نے بحران کی وجہ پاکستان سے آنے والی ادویات کی بندش کو قرار دیا ہے۔

افغان جریدے ہشتِ صبح نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ طورخم بارڈر کی بندش اور پاکستان سے ادویات کی درآمد پر پابندی کے بعد افغانستان میں غیر قانونی اور اسمگل شدہ ادویات کی بھرمار ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ادویات اب نہ صرف فارمیسیز بلکہ سڑک کنارے دکانوں تک بھی پہنچ چکی ہیں۔

ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ان ادویات کے معیار کی جانچ کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں جبکہ ذخیرہ کرنے کے حالات بھی طبی معیار کے مطابق نہیں، جس سے علاج کی افادیت متاثر ہو رہی ہے۔

افغان جریدے کے مطابق کابل کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اب ادویات پہلے جیسا اثر نہیں کرتیں اور بیماری کے ساتھ مالی دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ شہریوں کے مطابق ہنگامی صورتحال میں فارمیسیز پر انحصار مشکل ہوتا جا رہا ہے اور صحت کے نظام پر اعتماد کمزور پڑ رہا ہے۔

رپورٹ میں ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان میں ادویات کی اسمگلنگ نیا مسئلہ نہیں، تاہم طورخم کی طویل بندش اور طلب میں اضافے کے باعث صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی ادویات کی درآمد بند ہونے کے بعد غیر قانونی ادویات کی مانگ بڑھی، جس سے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسمگل شدہ ادویات پر ٹیکس کم ادا کیا جاتا ہے، اس لیے یہ نسبتاً سستی پڑتی ہیں اور منافع زیادہ ہوتا ہے مگر غیر قانونی ہونے کے باعث نہ معیار پر کوئی کنٹرول ہے اور نہ ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات موجود ہیں۔ بعض اوقات یہ ادویات شدید گرمی یا سردی میں کئی دنوں تک کنٹینرز میں کھڑی رہتی ہیں، جس سے انہیں نقصان پہنچتا ہے، مگر اس کے باوجود یہ مارکیٹ میں فروخت ہو جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ کشیدگی میں اضافے کے بعد پاکستان نے طورخم بارڈر کی بندش اور درآمدات پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد افغان طالبان حکومت کی جانب سے بھارتی اور ایرانی ادویات درآمد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں طالبان کے نائب وزیرِ صحت نے ایران جبکہ وزیرِ صحت نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔

رپورٹ میں ایک مقامی ڈاکٹر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسمگل شدہ ادویات زائد المیعاد ہو سکتی ہیں یا غلط حالات میں رکھی گئی ہوتی ہیں، جو یا تو بالکل اثر نہیں کرتیں یا مریض کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

ان کے مطابق بچوں، حاملہ خواتین اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں، جبکہ اینٹی بایوٹکس کے بے قابو استعمال سے دواؤں کے خلاف مزاحمت بڑھنے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو افغانستان کو ایک بڑے عوامی صحت کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Similar Posts