بھارتی آبی جارحیت، خطے کا مستقبل غیر یقینی

سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے آخرکار مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر دلہستی اسٹیج،II پن بجلی منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔

یہ منصوبہ پاکستان کے لیے دفاعی اور اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے پانیوں پر حق حاصل ہے، مگر بھارت اسے اس حق سے محروم کرے گا۔ دوسری جانب بھارت کے موقر اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے 2025کو بھارت کی عالمی سطح پر سفارتی سبکی کا سال قرار دے دیا اور کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی سے وابستہ توقعات، حقیقت کا روپ نہ دھار سکیں۔’’ دی ہندو‘‘ نے اعتراف کیا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات اب تک کی سب سے کشیدہ سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

 سندھ طاس معاہدہ برصغیر کی تاریخ کا وہ واحد بین الاقوامی آبی معاہدہ ہے جسے اکثر مثال بنا کر پیش کیا جاتا رہا کہ دشمنی، جنگوں اور شدید سیاسی کشیدگی کے باوجود بھی دو ریاستیں پانی جیسے حساس مسئلے پر کسی ضابطے کی پابندی کر سکتی ہیں، مگر بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی میں بھارت نے اس معاہدے کو عملاً کاغذ کا ایک ٹکڑا بنا کر رکھ دیا ہے۔

دریائے چناب پر دلہستی اسٹیج دوم پن بجلی منصوبے کی منظوری اسی سلسلے کی ایک تازہ اور سنگین کڑی ہے، جو نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور مستقبل کے لیے ایک خطرناک مثال بھی ہے۔ بھارت 3,277.45 کروڑ روپے کی لاگت سے جس منصوبے پر آیندہ سال کے اوائل میں کام شروع کرنے جا رہا ہے، وہ محض توانائی کا منصوبہ نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک ہتھیار ہے جس کے ذریعے پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی کو کنٹرول، محدود اور دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 دریائے چناب، سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریاؤں میں شامل ہے۔ اس دریا پر کسی بھی ایسے منصوبے کی تعمیر جو پانی کے بہاؤ، ذخیرے یا اخراج کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، معاہدے کی روح اور شقوں دونوں کی نفی ہے۔ دلہستی اسٹیج دوم منصوبہ 260 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مگر اس کے ڈیزائن، اسٹرکچر اور آپریشنل کنٹرول کے پہلو پاکستان کے لیے شدید خدشات کا باعث ہیں۔

یہ منصوبہ اکیلا نہیں بلکہ ساولکوٹ، رتلے، بسر، پکل دل، کوَر، کیرو اور کرٹھائی جیسے دیگر منصوبوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا جال بنتا جا رہا ہے جس کے ذریعے بھارت دریائے چناب کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے زرعی علاقوں، خاص طور پر پنجاب کے وسیع میدان، مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتے ہیں، جس کے اثرات خوراک، معیشت، سماجی استحکام اور قومی سلامتی تک پھیل سکتے ہیں۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان بین الاقوامی قوانین، معاہدات اور ریاستی ذمے داریوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ معاہدہ کسی یکطرفہ فیصلے سے معطل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کے فریقین کے علاوہ عالمی بینک بھی اس کا ضامن ہے۔

اس کے باوجود بھارت کا رویہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ خطے میں طاقت کے بل پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر ہمسایہ ممالک کے لیے بھی ایک خطرناک پیغام ہے کہ بھارت مستقبل میں کسی بھی معاہدے کی پاسداری کو ضروری نہیں سمجھے گا اگر وہ اس کے مفادات کے خلاف ہو۔پاکستان کے لیے یہ معاملہ محض سفارتی یا قانونی نہیں بلکہ دفاعی اور اسٹرٹیجک نوعیت کا ہے۔

پانی جدید دور میں جنگ کا ایک نیا محاذ بن چکا ہے، اور بھارت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ دریاؤں پر کنٹرول کا مطلب دشمن کی معیشت، زراعت اور سماجی ڈھانچے کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلہستی اسٹیج دوم جیسے منصوبے پاکستان کے لیے ایک خاموش مگر مہلک خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کو نہ صرف عالمی فورمز پر بھرپور آواز اٹھانی ہوگی بلکہ اندرونِ ملک پانی کے بہتر انتظام، متبادل ذرایع اور قومی یکجہتی کو بھی مضبوط بنانا ہوگا۔

دوسری جانب بدلتی عالمی جیو پولیٹیکل صورتحال میں پاکستان کا کردار ایک بار پھر نمایاں ہو رہا ہے۔ بھارتی اخبار دی ہندو میں شایع ہونے والے معروف تھنک ٹینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کبیر تنجا کے مضمون میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے عالمی حالات سے مؤثر فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ایک اہم اور بااثر ریاست کے طور پر منوایا ہے۔ امریکا، مغربی ایشیا اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام آباد اب صرف ایک علاقائی کھلاڑی نہیں رہا بلکہ عالمی سلامتی کے منظر نامے میں ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے بھارت نہ صرف نظرانداز نہیں کر سکتا بلکہ جس نے نئی دہلی کے پالیسی سازوں کو تشویش میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’’میرا پسندیدہ فیلڈ مارشل‘‘ کہنا محض ایک رسمی جملہ نہیں بلکہ پاکستان کی عسکری قیادت پر بین الاقوامی اعتماد کا مظہر ہے۔ یہ اعتماد ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا کو دہشت گردی، علاقائی تنازعات اور بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان خطے میں محض اپنے مفادات نہیں بلکہ مجموعی امن کے لیے بھی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ یہ سفارتی اقدامات اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ تعمیری اور مثبت تعلقات قائم کرنے میں سنجیدہ ہے۔اس کے برعکس بھارت کی سفارتی پوزیشن کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ خود بھارت کے موقر اخبار دی ہندو نے 2025 کو بھارت کی عالمی سطح پر سفارتی سبکی کا سال قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی سے وابستہ توقعات حقیقت کا روپ نہ دھار سکیں۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات تاریخ کی سب سے کشیدہ سطح پر پہنچ چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔ بنگلہ دیش جیسے قریبی اور تاریخی تعلقات رکھنے والے ملک کے ساتھ تناؤ بھارت کی سفارتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیپال، سری لنکا اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات میں وہ گرمجوشی نظر نہیں آتی جس کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔مزید یہ کہ پاکستان کے آبی حقوق کا معاملہ صرف ریاستی سطح تک محدود نہیں بلکہ یہ براہِ راست کروڑوں شہریوں کی روزمرہ زندگی، روزگار اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔

دریائے چناب کے پانی پر انحصار کرنے والے کسان، صنعتیں اور شہری آبادی پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی، غیر متوازن بارشوں اور آبی بدانتظامی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں بھارت کی جانب سے بالائی علاقوں میں بڑے پیمانے پر پن بجلی منصوبوں کی تعمیر اس بحران کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔ پانی کی کمی صرف فصلوں کی پیداوار میں کمی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات مہنگائی، غذائی عدم تحفظ، دیہی بے روزگاری اور شہروں کی طرف ہجرت کی صورت میں سامنے آتے ہیں، جو سماجی ڈھانچے کو کمزور کر دیتے ہیں۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت اپنی داخلی سیاست میں قوم پرستی اور سخت گیر بیانیے کو تقویت دینے کے لیے پاکستان مخالف اقدامات کو بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے پر حملہ بھی اسی سوچ کا تسلسل محسوس ہوتا ہے، جہاں طویل المدتی علاقائی امن کے بجائے قلیل المدتی سیاسی فائدے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مودی حکومت نے بارہا یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو ہر محاذ پر دباؤ میں رکھ سکتی ہے، مگر بدلتے عالمی حالات نے اس بیانیے کو کمزور کر دیا ہے۔

عالمی طاقتیں اب خطے میں توازن اور استحکام کی خواہاں ہیں، نہ کہ کسی ایک ریاست کی بالادستی۔جنوبی ایشیا کو اس وقت تعاون، اعتماد سازی اور مشترکہ ترقی کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، آبادی میں اضافہ اور معاشی دباؤ ایسے مسائل ہیں جن کا حل تصادم میں نہیں بلکہ اشتراک میں ہے۔ اگر بھارت واقعی خطے میں قیادت کا خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے معاہدوں کی پاسداری اور ہمسایہ ممالک کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر، دلہستی اسٹیج دوم جیسے منصوبے تاریخ میں محض ایک تکنیکی یا توانائی منصوبے کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے فیصلے کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے خطے میں بداعتمادی اور کشیدگی کو مزید گہرا کیا۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دلہستی اسٹیج دوم منصوبہ صرف ایک پن بجلی منصوبہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے مستقبل، امن اور استحکام کا امتحان ہے۔

پاکستان کو اپنے پانیوں پر حق حاصل ہے، اور اس حق سے محروم کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قوانین، اخلاقی اصولوں اور علاقائی امن کے خلاف ہوگی۔ بھارت اگر واقعی خود کو ایک ذمے دار عالمی طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے تو اسے طاقت کے بجائے معاہدوں، مذاکرات اور اعتماد سازی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ بصورت دیگر تاریخ اس رویے کو ایک ایسی غلطی کے طور پر یاد رکھے گی جس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔

Similar Posts