‘ وہ علم ہی کیا جو آسانی سے سمجھ میں آ جائے۔’
یہ جملہ استاذ الاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد کا ہے جو انھوں نے اپنے ایک لیکچر میں ارشاد کیا۔ اول انھوں نے نہایت سلیقے سے جیسے کہ ان کی گفتگو ہوا کرتی تھی، فلسفے کے کسی دقیق نکتے کی گرہ کھولی پھر سوالیہ نگاہوں سے طلبہ کی طرف دیکھا تو ایک لڑکے نے ذرا سا جھجھکتے ہوئے ہاتھ کھڑا کر دیا اور کہا کہ سر، یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات سنی اور کہا:
‘ یہ تو اچھی بات ہے، وہ علم ہی نہیں جو آسانی سے سمجھ میں آ جائے۔’
یہ کہہ کر انھوں نے بہ انداز دگر اس نکتے کی وضاحت کی۔
ڈاکٹر منظور احمد کو دنیا فلسفی کے طور پر جانتی ہے لیکن میرے لیے ان کا یہ تعارف کافی نہیں۔وہ متکلم تھے، میں ان کا سامع تھا۔ وہ گفتگو کرتے جاتے تھے اور میں سانس روکے انھیں سنتا جاتاتھا یہاں تک کہ مجھے خبر ہی نہ ہوتی کہ میں ہلکے سے ترنم کے ساتھ بہتی ہوئی ندی کے ساتھ کہیں دور جا نکلا ہوں پھر میں سوچتا کہ جیسی گفت گو منظور صاحب کرتے ہیں، کسی اور کے بس میں کیوں نہیں؟ یہی سوال میں ایک بار اپنے استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود سے پوچھ بیٹھا۔ ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہا کہ میاں! اس فسوں گر کے فسوں کے اسیر صرف تم ہی تو نہیں ہو۔ یہ کہہ کر انھوں نے میرے آتش شوق کو ہوا دی پھر بتایا کہ ایک بار جب سلیم بھائی( سلیم احمد مرحوم ) نے ان کی گفت گو سنی تو حیران ہوئے اور کہا:
‘ یار، یہ شخص کتنے سلیقے کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے۔’
تو یہ تھے ڈاکٹر منظور احمد۔ میرے زمانہ طالب علمی میں وہ جامعہ کراچی کلیہ فنون کے ڈین تھے۔ ہم اپنے شعبے میں اگر کوئی تقریب برپا کرتے تو ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم کو مدعو کرتے اور ڈاکٹر منظور احمد صاحب کو۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی وائس چانسلر شپ کا دور تمام ہوا تو اس کے بعد ہم نے صرف ڈاکٹر منظور احمد کو ہی سنا جب تک ہم جامعہ میں رہے، کبھی کسی دوسرے بزرگ کو مدعو نہیں کیا۔
ڈاکٹر منظور احمد میں ایسی کیا خوبی تھی جس کے ہم گرویدہ ہوئے؟ یہ سوال محض ایک سوال نہیں، عرف عام میں وہی کچھ ہے جسے پنڈورا بکس کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب رام پور سے ہجرت کر کے لاہور پہنچے تو سامان سفر میں دو چیزیں تھیں۔ ان میں ایک پاکستان تھا جس کی محبت میں اس نوجوان نے اپنا وطن چھوڑا اور ان دیکھی منزلوں کی مسافت اختیار کی۔ دوسری چیز ایک آرزو تھی۔ آرزو یہ تھی کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا ہے، اس کی طرف بامعنی پیش رفت ہونی چاہیے۔ اسی آرزو کی تکمیل کے لیے وہ سید ابوالاعلی مودودی کے آستانے پر پہنچے اور ان کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ زمانہ طالب علمی تک جمیعت کے دست و بازو رہے۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم کے ساتھ اسٹوڈنٹس وائس شائع کیا۔ یہ لڑکے اسے سائیکلو اسٹائل پر شائع کرتے پھر سڑکوں پر کھڑے ہو کر اسے فروخت کیا کرتے۔
یہ پرچہ اتنا مقبول ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سرکیولیش دس ہزار تک جا پہنچی۔ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں کے لیے شائع کیے جانے والے اس مجلے کا علمی معیار اتنا بلند تھا کہ اس کے حلقہ قارئین میں اے کے بروہی جیسے ممتاز دانش ور اور قانون دان بھی شامل ہو گئے۔ اسٹوڈنٹس وائس کے وہ نہ صرف قاری بنے بلکہ بائیں سے دائیں ہو گئے یعنی ایک جدید تعلیم یافتہ سیکیولر دانش ور مولانا مودودی جیسی باتیں کرنے لگا۔ اس کارنامے کا کریڈٹ یقینا پروفیسر خورشید احمد کو جاتا ہے لیکن یہ کریڈٹ صرف ان ہی کا نہیں، ڈاکٹر منظور احمد بھی ‘اسٹوڈنٹس وائس’ کی مجلس ادارت کا حصہ تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمانہ ہی ایسا تھا جس میں جو جس جگہ تھا، آفتاب تھا۔
زمانہ طالب علمی کے بعد کیا ڈاکٹر منظور احمد آگے بڑھ گئے یا کسی مختلف راستے کے مسافر بن گئے؟ ان باتوں سے انھیں سمجھنا مشکل ہو جائے گا۔ کیسے؟ یہ سوال مجھے اپنے زمانہ طالب علمی میں لے جاتا ہے۔
محمود حسین میرا قریب ترین دوست اور کلاس فیلو ہے۔ مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے اسے دوسروں کا تختہ مشق بن جانے میں لطف آیا کرتا تھا۔ اس کی دوسری سرگرمی تقریبات برپا کرنا تھی۔ وہ کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی مجلس سجانے کا موقع تلاش کر لیا کرتا۔ ایسا یاد پڑتا ہے کہ استاد گرامی پروفیسر متین الرحمن مرتضی مرحوم کی زیر نگرانی ہماری کلاس نے بہت سے مجلے شائع کیے جن میں ‘ شعاع نو’، ‘ادراک’ اور ‘ رینجر’ کے نام اس وقت ذہن میں آتے ہیں۔ ان مجلوں کی تقریب اجرا میں ہم نے ڈاکٹر منظور احمد کو زحمت دی۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری کاوشوں کی تحسین کی پھر کہا کہ آپ اچھے اس لیے ہیں کہ آپ کے استاد اچھے ہیں۔ ایسی بات ممکن ہے کہ کسی اور نے بھی کہی ہو لیکن منظور صاحب کی زبان سے نکلی ہوئی بات ضرب المثل بن جاتی تھی، اصول بن جاتی تھی۔ اس تقریب کی ایک تو یہ بات مجھے یاد ہے، دوسری بات کا تعلق ہماری پیشہ وارانہ تعلیم سے تھا۔
ہم لوگ خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ ہمیں اپنے عہد کے مایہ ناز اساتذہ سے فیض ملا جیسے استاذ الاساتذہ پروفیسر زکریا ساجد، پروفیسر متین الرحمن مرتضی، پروفیسر صالحہ بلال، پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد زبیری، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود، پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی، محبت کی شیرینی کے ساتھ دلوں میں گھر کر لینے والے پروفیسر انعام باری کے علاوہ جمہوری آزادیوں اور حقوق نسواں کی سب سے بڑی علم بردار میڈم شاہدہ قاضی۔ اس بنا پر اپنے مضمون اور پیشے کے معاملات میں ہم کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن اس روز منظور صاحب نے جو بات کہی، اسے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو سمجھ میں آ رہا ہے کہ وہ اپنے وقت سے کتنا آگے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اپنے عہد کے ان تقاضوں کو سمجھنا اور ان پر پورا اترنا بھی ضروری ہے جو سکہ رائج الوقت ہوں لیکن میں چاہوں گا کہ آپ کی نگاہ مستقبل پر رہے کیوں کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ صحافت کی جو صورت آج دکھائی دیتی ہے، بہت جلد ایسی نہیں رہے گی بلکہ ایسی ہوگی کہ پہچانی نہیں جائے گی پھر تم لوگوں کے روزگار کا سوال ایک عفریت کی صورت اٹھ کھڑا ہو گا جس شخص نے آج مستقل کو سمجھ لیا، اس کا مستقبل تو ہے، باقی اس تند و تیز ریلے میں بہہ کر لا پتہ ہو جائیں گے۔
یہ ایک ایسی بات تھی جو ہم نے اپنے اساتذہ سے کبھی نہیں سنی تھی۔ تو واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر منظور احمد کا یہی اصل تعارف ہے۔ وہ ہمیشہ وقت سے آگے رہتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ان باتوں پر سوچا اور کلام کیا جو عام طور پر نگاہوں سے اوجھل ہوتیں یا ان کے ہم عصروں کی سمجھ میں ہی نہ آتیں۔
ان کے نظریاتی ارتقا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کی پرورش اور اٹھان دائیں بازو کے خالص دینی طبقے میں ہوئی، وہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ پاکستان کو خالص اسلامی نظریاتی ملک بنانا چاہتے تھے، اس لیے وہ مولانا مودودی کے قریب ہوئے لیکن بہت جلد انھیں اندازہ ہو گیا کہ دینی رجحانات رکھنے والے طبقات جمود کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس چیز نے انھیں پریشان کیا لیکن اس پر وہ عمومی رویے یعنی تنقید کے تیر چلانے کے بہ جائے ایک اور کام میں مصروف ہو گئے۔ انھوں نے جمود کے اسباب کی کوشش شروع کر دی یعنی اپنے عہد کے دانش سروں اور مفکروں سے آگے نکل گئے۔ ان کی کتاب ‘ اسلام: چند فکری مباحث’ اسی موضوع پر کلام کرتی ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ تنقید کا نشانہ بنے۔ ان کے بارے میں وہی تصور کیا گیا جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے یعنی وہ اپنی راہ سے بھٹک چکے ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے بیس برس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آج جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے، وہ اس کا مشاہدہ صدی کی ابتدا میں کر رہے تھے۔ ان کے تجزیے اور تشخیص سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اختلاف ہی تو تھا جس کا خیر مقدم وہ خوشی سے کیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے:
‘ میرے عزیزو! صرف ایک چیز ایسی ہے جسے ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے اور وہ ہے، سوال۔’
یہی سوال تھا جسے زندہ رکھنے کے لیے انھوں نے اپنے گھر پر اہل علم کی نشستوں کا اہتمام کیا۔ وہ ہر ہفتے موقع کی مناسبت سے کسی موضوع کا انتخاب کرتے پھر اس کا مختصر تعارف لکھ کر نشست کے شرکا کو ڈاک سے ارسال کر دیتے۔ نشست میں اہل علم اس موضوع پر آزادی سے اظہار خیال کرتے۔ اختتام پر وہ حاصل بحث کا خلاصہ پیش کرتے۔
وہ ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی و عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ریکٹر رہے۔ جامعہ کراچی کے علمی مزاج کی تشکیل جن بزرگ ہاتھوں سے ہوئی، ان میں ایک بابرکت ہاتھ ان کا بھی تھا۔ انھوں اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی قابل قدر کام کیا لیکن بات یہ ہے کہ مناصب اور ذمے داریوں سے ڈاکٹر منظور احمد جیسے لوگوں کی شناخت نہیں ہوتی۔ ان کی شناخت ان کی فکر سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی فکر میں تحرک تھا، وہ کسی علمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں جاتے تھے بلکہ ان کی جستجو کا سفر جاری رہتا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو فخر سے کہا کرتے ہیں کہ جو بات میں نے پچاس برس پہلے کہی تھی، آج بھی اس پر قائم ہوں بلکہ ان کی جستجو کا سفر چوں کہ جاری رہتا تھا اور وہ خود بھی آگے بڑھ جاتے تھے۔