بنگلہ دیش: حکومت گرانے والے طلبہ کا انتخابات میں جماعت اسلامی سے اتحاد

بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹانے والی احتجاجی تحریک سے جنم لینے والی طلبہ قیادت کی جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) نے فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل جماعتِ اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اس فیصلے نے جہاں ملکی سیاست میں نئی صف بندی کو جنم دیا تو وہیں این سی پی کے اندر شدید اختلافات بھی سامنے آ ئے ہیں۔

نیشنل سٹیزن پارٹی کے سربراہ ناہد اسلام نے اتوار کو کہا کہ پارٹی نے یکجہتی کے لیے جماعتِ اسلامی کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ امیدواروں کی حتمی فہرست پیر کے روز جاری کی جائے گی۔ پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے اس اتحاد کو منقسم سیاسی منظرنامے میں ایک عملی اور حقیقت پسندانہ قدم قرار دیا ہے۔

تاہم جماعتِ اسلامی کے ساتھ اتحاد کے فیصلے نے پارٹی کے اندر انتشار کو جنم دے دیا ہے۔ برطانیہ میں اپنا طبی کیریئر چھوڑ کر این سی پی میں شامل ہونے والی تسنیم جارا نے ہفتے کو استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیں گی۔ اس کے علاوہ پارٹی کے کئی دیگر ارکان بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔

این سی پی کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پارٹی کے بنیادی نظریات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک یونیورسٹی طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نظریاتی عدم مطابقت کے باعث این سی پی کے لیے میری اخلاقی حمایت اب باقی نہیں رہے گی۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں سیاسی صف بندیاں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، جو سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا سے وابستہ ہے اور عملاً ان کے بیٹے اور قائم مقام چیئرمین طارق رحمان کی قیادت میں کام کر رہی ہے، تقریباً 17 برس کی جلاوطنی کے بعد طارق رحمان کی واپسی کے بعد دوبارہ سیاسی رفتار حاصل کر رہی ہے۔

12 فروری 2026 کو بنگلا دیش میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات ایک عبوری انتظامیہ کے تحت منعقد ہوں گے، جس کی سربراہی نوبل انعام یافتہ محمد یونس کیں گے۔

شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد قائم ہونے والی یہ عبوری حکومت گزشتہ تقریباً دو برس کے سیاسی انتشار کے بعد استحکام کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔

امریکا میں قائم انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹیٹیوٹ کے دسمبر میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق این سی پی صرف 6 فیصد عوامی حمایت کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ بی این پی 30 فیصد اور جماعتِ اسلامی 26 فیصد حمایت کے ساتھ بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود ہیں۔

Similar Posts