اس سال بھارت نے چین کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کا سب سے بڑا چاول پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ حکومت اور زرعی لابی نے اس کامیابی کو کسانوں کی محنت اور حکومتی اقدامات کی کاوش قرار دیا اور حکومتی پالیسیوں کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ مگر یہ فتح محض اعداد و شمار کی چمک نہیں، بلکہ ایک گہری ماحولیاتی اور معاشی بحران کی جھلک ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سالوں میں بھارت کی چاول برآمدات دوگنی ہوئی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں یہ 20 ملین ٹن سے زیادہ رہیں۔ دنیا کی کل چاول برآمدات کا 40 فیصد بھارت کے پاس ہے، جو اسے عالمی تجارت میں اہم بناتا ہے۔
1.4 ارب آبادی والا بھارت اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ چاول اگاتا ہے۔ یہ غریب ممالک کی خوراک کی قیمتیں کم رکھتا ہے۔ مگر یہ کامیابی پانی کی بے تحاشہ کھپت پر مبنی ہے، جو ہریانہ اور پنجاب میں پانی کی کمی کو بڑھا رہی ہے۔
بھارت کے زرعی علاقوں کے کسان اس کامیابی سے خوش نہیں ہیں۔ متعدد کسانوں، ماہرین اور سرکاری اہلکاروں کے مطابق، چاول کی کاشت زمین کے پانی کے ذخائر پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے۔ ہریانہ اور پنجاب جیسے ریاستوں میں پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہے اور کسان ہر سال اپنے بور ویلز کو مزید گہرا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک دہائی قبل جہاں پانی صرف 30 فٹ کی گہرائی پر دستیاب تھا، وہاں اب بور ویلز 80 سے 200 فٹ تک جا رہی ہیں، جس سے کسانوں کی لاگت میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، حکومت کی سبسڈی پالیسیاں، جیسے چاول کی کم از کم حمایت شدہ قیمت میں اضافہ اور بجلی کی سبسڈی، کسانوں کو زیادہ پانی استعمال کرنے والے فصلوں کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ پانی کے دباؤ والے ملک میں کسان قیمتی زیر زمین پانی کے غیر مستحکم استعمال پر مجبور ہیں۔
پانی کے ذخائر پر اضافی دباؤ کے باوجود، شمالی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کے کسان بارش کے موسم کے باوجود بھی پانی کے شدید فقدان کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، یہ ریاستیں اپنے زیر زمین پانی کے ذخائر سے سالانہ 35 فیصد سے 57فیصد زیادہ پانی نکال رہی ہیں جتنا قدرتی طور پر ریچارج ہو رہا ہے۔
کچھ علاقوں میں نئے بور ویلز پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے، مگر اس سے کسانوں کے اخراجات میں کمی نہیں آئی کیونکہ وہ موجودہ بور ویلز کے لیے زیادہ طاقتور پمپ اور لمبی پائپ خریدنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک کلوگرام چاول پیدا کرنے کے لیے 3,000 سے 4,000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے، جو عالمی اوسط سے 20 فیصد سے 60 فیصد زیادہ ہے۔ بڑے کسان سبسڈی کے نظام کو سمجھ کر اور گہری بور ویلز کھود کر منافع کما لیتے ہیں، مگر چھوٹے کسان اس اضافی لاگت سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔
حالیہ اقدامات کے طور پر، ہریانہ حکومت نے 2023 میں کسانوں کو کم پانی استعمال کرنے والی فصلیں، جیسے کہ باجرا، اگانے کی ترغیب دینے کے لیے ہر ہیکٹر17 ہزار 500 روپے کی سبسڈی فراہم کی۔ مگر یہ صرف ایک سیزن کے لیے تھی اور بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے میں ناکام رہی۔ ماہرین کے مطابق، مستقل تبدیلی کے لیے کم از کم پانچ سال کی مستقل ترغیب درکار ہے۔
زرعی اقتصادیات کے ماہر اشوک گلاٹی کے مطابق، پنجاب حکومت چاول پر فی ہیکٹر 39 ہزار روپے خرچ کرتی ہے۔ اگر اسی رقم میں سے تقریباً 35 ہزار روپے کم پانی والی فصلوں پر خرچ کیے جائیں تو کسانوں کی آمدنی برقرار رہ سکتی ہے اور حکومت کی سبسڈی کی مجموعی لاگت بھی کم ہو سکتی ہے۔
پنجاب کے کسان کے مطابق، پنجاب اور ہریانہ کی زمین زرخیز ہے اور ہم تبدیلی کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ حکومت ہماری پیداوار کو کم از کم قیمت پر خریدے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی چاول کی پیداوار اور برآمدات نہ صرف ملک کے پانی کے مستقبل کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔ بھارت دنیا کے چاول کے برآمدات کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے، اور کسی بھی تبدیلی کا اثر عالمی مارکیٹ پر پڑ سکتا ہے۔