سعودی عرب نے منگل کے روز یمن کی بندرگاہ پر ایک بحری جہاز پر فضائی حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ اس جہاز پر متحدہ عرب امارات سے ہتھیاروں کی کھیپ یمن پہنچائی گئی تھی جسےعلیحدگی پسند گروہ کے حوالے کیا جانا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے سعودی کارروائی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
دونوں ملک ایسے موقع پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں جب یمن کا ایک علیحدگی پسند گروہ سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) ملک کے جنوبی علاقوں میں سرگرم ہے۔
واضح رہے کہ یمن اس وقت تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے اور ملک میں انتہائی کشیدہ صورتحال ہے۔
ملک کے ایک حصے پر پریزیڈینشل لیڈرشپ کونسل (پی ایل سی) کی حکومت ہے، ایک حصے پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے جبکہ تیسرے حصے پر ایس ٹی سی قابض ہے۔
ایس ٹی سی نے رواں ماہ پیش قدمی کرتے ہوئے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پی ایل سی چند علاقوں تک محدود ہو کررہ گئی۔
متحدہ عرب امارات ایس ٹی سی کی حمایت کرتا ہے جب کہ سعودی عرب اسے ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے پی ایل سی کے پیچھے کھڑا ہے۔
منگل کو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچی جب سعودی عرب نے یمن میں ایک بحری جہاز پر فضائی حملہ کیا اور متحدہ عرب امارات پر ایس ٹی سی کو بکتربند گاڑیاں اور ہتھیار فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔ سعودی سرکاری نیوز ایجنسی نے حملے کی ویڈیو بھی جاری کی جس میں بحری جہاز پر لدی گاڑیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ بحری جہاز پر موجود گاڑیاں کسی یمنی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یمن میں موجود متحدہ عرب امارات کی افواج کے استعمال کے لیے بھیجی گئی تھیں۔
دونوں ممالک کے درمیان حالات اس نہج پر کیسے پہنچے، یہ سمجھنے کے لیے پہلے یمن کی اسٹریٹیجک اہمیت، موجودہ حالات اور سعودی عرب اور یو اے ای کے وہاں موجود مفادات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
یمن دنیا کی اہم ترین تجارتی گزرگاہ باب المندب پر واقع ہے جو بحیرہ احمر کو بحیرہ عرب اور بحرِ ہند سے ملاتی ہے۔ یہاں سے عالمی تجارت کا تقریباً 10 سے 12 فیصد سامان اور روزانہ لاکھوں بیرل تیل گزرتا ہے۔
جزیرہ نما عرب کے جنوب مغربی کونے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ ملک افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ اس کی طویل ساحلی پٹی بحری جہاز رانی کے کنٹرول کے لیے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے۔
سعودی عرب کی طویل سرحد براہِ راست یمن سے ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب یمن میں کسی بھی ایسی عسکری مداخلت یا علیحدگی پسند تحریک کو اپنی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ تصور کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات، یمن کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب اور عمان حائل ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان کوئی براہِ راست زمینی سرحد موجود نہیں ہے۔
یو اے ای 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں نو ممالک کے فوجی اتحاد کا حصہ بن کر یمن میں داخل ہوا تھا۔جس کے بعد 2019 میں امارات نے اپنی افواج کے انخلاء کا اعلان کر دیا تھا تاہم اس کی فوج کا انسدادِ دہشت گردی یونٹ تاحال یمن میں موجود ہے جو دفاعی معاہدے کے تحت یمن کی مقامی فورسزکو تربیت فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اتحاد کا مقصد اُس وقت کے یمنی صدر منصور ہادی کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو بحال کرنا تھا، جسے ایرانی حمایت یافتہ باغیوں نے دارالحکومت صنعاء سے بے دخل کر دیا تھا۔
تاہم اب پی ایل سی اور ایس ٹی سی کے درمیان اختلافات کے باعث یمن میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور حوثی باغیوں کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان بھی براہِ راست فوجی ٹکراؤ شروع ہو چکا ہے۔
حالیہ پیش رفت کے بعد یمن میں طاقت تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے:
1. انصار اللہ (حوثی باغی)
یہ باغی گروہ ہے جسے حوثی بھی کہا جاتا ہے۔ یمن کے شمال اور دارالحکومت صنعا سمیت مغربی ساحلی پٹی پر اس گروہ کا کنٹرول ہے اور اسے ایران کا حامی سمجھا جاتا ہے۔
2011 میں عرب ممالک میں آنے والے انقلاب کی لہر کے بعد صدر علی عبداللہ صالح نے اقتدار چھوڑا تو اس کے بعد حوثیوں نے دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا۔ 2015 میں سعودی قیادت میں عرب اتحاد کی فوجی مداخلت کے بعد سے باغیوں اور سعودی اتحاد کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں۔ جس میں سعودی اور یو اے ای کے حمایت یافتہ دونوں گروہ بھی شامل ہیں۔
2. صدارتی قیادت کونسل (پی ایل سی)
یہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت ہے۔ اپریل 2022 میں سعودی عرب کی کوششوں سے ایک 8 رکنی صدارتی قیادت کونسل بنائی گئی تاکہ حوثیوں کے خلاف تمام مخالف دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جا سکے۔
اس کونسل میں ایس ٹی سی کے سربراہ عیدروس الزبیدی کو کونسل کا نائب صدربنایا گیا۔ یہ دھڑا یمن کی سرکاری حکومت کے طور پر کام کر رہا تھا تاہم دسمبر 2025 میں اختلافات کے باعث یہ اتحاد اب ٹوٹا ہے تو پی ایل سی اور ایس ٹی سی آمنے سامنے آچکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایس ٹی سی کی پیش قدمی کے باعث یمن کے جنوب کے اہم علاقے سعودی حمایت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ صدارتی کونسل کا اثر و رسوخ اب صرف چند علاقوں تک محدود ہے۔
3. جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی)
یہ یمن کا علیحدگی پسند گروہ ہے جس کا اب ملک کے جنوبی علاقوں پر قبضہ ہے۔ یہ 1990 سے پہلے کی آزاد جنوبی یمنی ریاست (پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن) کو دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات پر اس گروہ کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
رواں ماہ ’ایس ٹی سی‘ نے بڑی فوجی کارروائی کے بعد یمن کے 8 جنوبی علاقے (عدن، حضرموت اور مکرہ) کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا تھا جس میں کئی اہم بندرگاہیں اور تیل کے ذخائر بھی شامل ہیں۔
اگرچہ ’ایس ٹی سی‘ نے سعودی عرب پر اب تک کوئی براہِ راست حمل نہیں کیا لیکن حالیہ ماہ صدارتی قیادت کونسل کے زیرِ اثر علاقوں میں پیش قدمی کو سعودی عرب اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
ماضی میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ حوثیوں نے سعودی عرب کے شہروں اور تیل کی تنصیبات پر بھی میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔
حالیہ کشیدگی کے دوران سعودی عرب نے الزام لگایا ہے کہ اماراتی حمایت یافتہ ایس ٹی سی کی پیش قدمی سعودی قومی سلامتی کے لیے ’ریڈ لائن‘ ہے۔ سعودی عرب نے منگل کو جس بندرگاہ ’المکلہ‘ پر فضائی حملہ کیا وہ ایس ٹی سی کے زیرِ قبضہ صوبے حضرموت میں واقع ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے دعوٰی کیا ہے یہ فضائی حملہ متحدہ عرب امارات سے آنے والی اس اسلحے کی کھیپ کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا جو ایس ٹی سی کے لیے لائی گئی تھی۔
اگرچہ یو اے ای نے یمن کے کسی بھی علیحدگی پسند گروہ کی حمایت کے الزام کو مسترد کیا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اماراتی حکومت ایس ٹی سی کی حمایت کے ذریعے بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحرِ ہند کے سنگم پر واقع اہم بندرگاہوں (جیسے عدن اور المکلا) پر اثر و رسوخ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
یہ مقصد حاصل کرکے یو اے ای عالمی بحری تجارت کے اہم ترین راستوں کی نگرانی اور کنٹرول حاصل کر کے خود کو ایک ’عالمی لاجسٹک حب‘ کے طور پر مضبوط بنا سکتا ہے۔
اُدھر یمنی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق یمن نے یو اے ای کے ساتھ دفاعی معاہدہ منسوخ کر دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات ایس ٹی سی کی حمایت کے ذریعے یمن میں انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔
یمن نے یو اے ای کے ساتھ دفاعی معاہدہ ختم کرنے کا بھی اعلان کرتے ہوئے اماراتی افواج کو 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ جس کے بعد متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی یمن میں فوجی مشن ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اماراتی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یمن میں تعینات انسدادِ دہشت گردی یونٹس کا مشن رضاکارانہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے، انسدادِ دہشت گردی یونٹس کی واپسی رضا کارانہ بنیادوں پر اور شراکت داروں کے ساتھ مکمل رابطے اور تعاون کے ذریعے عمل میں لائی جائے گی۔
اس سے قبل اماراتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں یمن میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گہرے افسوس کا اظہار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امارات کی فوج یمنی حکومت کی دعوت پر ہی اس اتحاد میں شامل ہوئی تھی۔ جس کا مقصد یمن کی خودمختاری، قانونی حیثیت کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن میں امارات کی فوج نے اِن مقاصد کے حصول کے لیے قربانیاں دیں اور یمنی عوام کی حمایت کی ہے۔ حالیہ معاملات کو ذمہ داری کے ساتھ حل کرنا چاہیے تاکہ کسی قسم کی مزید کشیدگی سے بچا جا سکے۔