جوہری تنازع پر امریکا اور ایران کے درمیان اہم مذاکرات آج عمان میں ہوں گے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ان مذاکرات کا محور ایک نئی نیوکلیئر ڈیل کا قیام ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیووٹکوف ان مذاکرات میں بلواسطہ طور پر شریک ہوں گے۔
ادھر امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ مذاکرات براہ راست ہوں گے اور امریکا اس امر کو یقینی بنائے گا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔
اسٹیووٹکوف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے بعد ایرانی حکام سے مذاکرات کے لیے عمان پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے پر روس کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو نیوکلیئر پروگرام محدود کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی جس کی قیادت اسرائیل کرے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ 79 سال کے ہوگئے، دماغی اور جسمانی امتحان لیا گیا
امریکا سے مذاکرات یا اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ!!! ایرانی سپریم لیڈر کو اعلیٰ حکام کی غیرمعمولی وارننگ
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ان کے اعلیٰ حکام کی جانب سے غیرمعمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے، جنہوں نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر امریکا سے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی اجازت نہ دی گئی تو اسلامی جمہوریہ ایران کے خاتمے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خامنہ ای نے گزشتہ ماہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے سربراہان کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔ ان اعلیٰ حکام نے متفقہ طور پر خامنہ ای پر زور دیا کہ وہ واشنگٹن سے براہ راست مذاکرات کی اجازت دیں کیونکہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایران کے نیوکلیئر تنصیبات نطنز اور فردو پر حملوں کا خطرہ سنگین ہو چکا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور صدر مسعود پزشکیان نے بھی خبردار کیا کہ اگر ایران جنگ میں گیا تو اقتصادی تباہی اور عوامی بغاوت ملک کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی بندش اور پانی کی قلت جیسے بحران پہلے ہی عوامی زندگی کو مفلوج کر رہے ہیں، یہاں تک کہ یزد میں اسکول اور سرکاری دفاتر بند کرنے پڑے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق خامنہ ای نے بالآخر مذاکرات کی اجازت دے دی، تاہم انہوں نے شرائط بھی عائد کی ہیں۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی میں کمی اور سخت نگرانی پر آمادگی ظاہر کی ہے، مگر ایران کے میزائل پروگرام کو خارج از بحث قرار دیا ہے، جسے ذرائع نے ”ڈیڈ لاک“ کا باعث قرار دیا ہے۔
ایران کی جانب سے پہلی بار عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ خطے میں اپنی پالیسیوں اور حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں جیسے گروپوں کی حمایت پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے۔ تاہم ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کے ارادے کی تردید کی ہے، باوجود اس کے کہ اس نے یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک بڑھا دی ہے، جو صرف ہتھیاروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
امریکا کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر بات چیت ناکام ہوئی تو ایران کے لیے ایک ”بہت برا دن“ آ سکتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے جمعے کے روز کہا کہ ایران ’اچھے ارادے اور مکمل چوکسی کے ساتھ‘ سفارت کاری کو موقع دے رہا ہے، اور امریکا کو اس فیصلے کی قدر کرنی چاہیے۔
سپریم لیڈر کے مشیر علی شمخانی نے بھی سوشل میڈیا پر کہا کہ عراقچی مکمل اختیار کے ساتھ امریکا سے بلواسطہ مذاکرات کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر واشنگٹن سنجیدگی دکھائے تو معاہدے کا راستہ صاف ہے۔‘
ایران کے سخت گیر ذرائع ابلاغ مذاکرات پر شکوک و شبہات ظاہر کر رہے ہیں، جب کہ اصلاح پسند میڈیا معاشی مواقع اور سرمایہ کاری کی امید دلارہا ہے۔ ادھر امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف روس میں صدر پیوٹن سے ملاقات کے بعد ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ ماسکو میں ایران، چین اور روس کے درمیان جوہری امور پر تکنیکی سطح کے مشاورتی اجلاس بھی ہوئے۔
مغربی ممالک بالخصوص جرمنی نے فریقین پر زور دیا ہے کہ سفارتی حل نکالا جائے، اور اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان بات چیت کا چینل بحال ہو چکا ہے۔