کیا کراچی کے موجودہ حالات پر بیانات اور ملاقاتیں صرف سیاسی ڈرامہ ہیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

سینئرتجزیہ کارمرتضٰی سولنگی کہتے ہیں کہ تمام گروہ موجودہ سیاسی انتظام کے بینیفشریز ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اسے میں سیاسی اداکاری ہی کہوں گا، اینکر پرسن امیرعباس کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام کمزور کیا اس کو کھوکھلا کیا جبکہ اینکرپرسن ثنا مرزا نے کہا کہ ایم کیو ایم میں جتنے بھی لوگ موجود ہیں یا وہ زبردستی ایم کیو ایم میں ہیں یا پھر ان کے پاس کوئی چوائس موجود نہیں ہے۔

کراچی کے موجودہ حالات اور اس پر سیاسی جماعتوں کے بیانات کے حوالے سے آج نیوز کے پروگرام روبرو میں میزبان شوکت پراچہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے کہا کہ یہ سب فرینڈلی فائرنگ ہو رہی ہے، یہ تمام گروہ موجودہ سیاسی انتظام کے بینیفشریز ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہیں، اسے میں سیاسی اداکاری ہی کہوں گا، اس سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے بہ شمول آفاق احمد کے۔

مرتضٰی سولنگی نے کہا کہ مسئلہ صرف ڈمپرز کا نہیں ہے کہ وہ کتنے غیر ذمے دار طریقے سے لوگوں کو کچلتے ہیں۔ ڈمپرز میں جو مال مصالحہ جاتا ہے اس کا بھی ہے، ڈمپرز کی ضرورت کیوں ہے؟ پانی کا جو نظام ہے وہ فرسودہ اور ناکارہ ہے اور کرپشن پر مبنی ہے، جب تک اس کو ٹھیک نہیں کریں گے یہ مسائل ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ڈمپر کی ٹکر کے واقعے سے مجھے بشری زیدی یاد آئی 1985 میں جس کے بعد ایک لسانی سیاست شروع ہوئی، یہ معاملہ پرانا ہے میرا خیال میں ان لوگوں نے سیکھا ہے کہ لسانیت کی بنیاد پر لوگوں کا قتل عام کسی طور پر بھی کوئی بہتر سیاست نہیں ہے اور موجودہ نظام اور موجودہ ریاست کی شکل ہے نہ وہ اس کی اجازت دے گی۔

اینکر پرسن امیرعباس نے کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سب بینیفشریز ہیں سب، آج گورنر سندھ اور سعید غنی کی پریس کانفرنس ہوئی اور یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی باہمی سیاست ہے ایک دوسرے کے خلاف سندھ خصوص اربن سندھ جس میں حیدرآباد، میر پور پر اور سکھر شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کو بانی ایم کیو ایم کی سپورٹ کسی حد تک ہے جو اب اس کی جگہ پی ٹی آئی نے لی۔ ایم کیو ایم کو کیسے پریس کانفرنس کرائی گئی۔ حالانکہ ایم کیو ایم کا انقلابی منشور تھا کہ کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہیے اور سب میرٹ پر ہو، پیپلز پارٹی نے بلدیاتی نظام کمزور کیا اس کو کھوکھلا کیا وہ تو الیکشن بھی نہیں کرواتی، دونوں کی سیاست نورا کشتی کی سیاست ہے خود پیپلز پارٹی کی 4 سے 5 سیٹیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم جب بن رہا تھا تو اس وقت کے پی سے یہ آواز آئی کہ یہ مردہ گھوڑا ہے، سندھ سے آواز آئی کہ یہ ہماری لاشوں سے گزر کر بنے گا، کسی نے کہا کہ یہ ہماری ماں ہے کوئی لے کر تو دکھائے جب یہ ڈکشن استعمال کیا جاتا ہے نفرت والا تو اس سے نیچے جو عام طبقہ ہے اس کے اندر وہی کچھ ہوگا جو 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہوا اور 2016 اور 12 مئی کا واقعہ ہوا۔

اینکر پرسن ثنا مرزا نے پروگرام میں شاہی سید کی ایم کیو ایم کے آفس آمد، مرتضٰی وہاب کی کامران ٹیسوری سے ملاقات اور آفاق احمد کی کال واپسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک آفاق احمد اور ایم کیو ایم کی بات ہے جب مصطفٰی کمال کی جماعت تھی، آفاق احمد کا پورا فیز دو تین علاقوں پر مشتمل ہے، کورنگی سے لانڈھی اور قائد آباد کی پارٹی کی رٹ موجود ہے، جس کے لیے ان کو اتنی محنت کرنی پڑتی ہے، اب چونکہ وہ بہت عرصے سے سیاست میں غیرفعال تھے۔ جس طریقے سے انھیں لایا گیا، مصطفٰی کمال کی طرح وہ بھی کسی ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کی اپنے ایریاز میں اثرورسوخ ہے لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکا۔

ثنا مرزا نے کہا کہ ایم کیو ایم کا جو ٹینور ہے وہ کس فیز میں ہے، اس حوالے سے بات بڑی کلیئر ہے جب بانی ایم کیو ایم کو ہٹایا گیا تو ایم کیو ایم بنیادی طور پر ختم ہو چکی تھی۔ ایم کیو ایم میں جتنے بھی لوگ موجود ہیں یا وہ زبردستی ایم کیو ایم میں ہیں یا پھر ان کے پاس کوئی چوائس موجود نہیں ہے اور جب پی ایس پی کو شامل کیا گیا اس کا مقصد یہ تھا کہ جو بانی ایم کیو ایم کا فیز موجود ہے اس کو ختم کیا جائے، لیکن ایم کیو ایم اس کو ختم کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کو سمجھنا پڑے گا کہ پچھلے 15 سالوں میں ہر باریہ کہتے رہے کہ اگر کراچی کے لیے کچھ نہ کیا تو ہم حکومت سے نکل جائیں گے، یہ متعدد بار ہوا جب تک یہ حکومت سے نہیں نکلیں گے جو کھوئی ہوئی ان کی عزت ہے کراچی ، حیدآباد اور میرپور خاص میں وہ کبھی واپس نہیں آ سکے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے پاس یہ کریڈیٹ تو موجود ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرہ لگانے پر انھوں نے اپنے بانی کو نکال دیا اس پر گفتگو کرتے ہوئے ثنا مرزا نے کہا کہ یہ کریڈیٹ بنتا ہے لیکن ہمیں ووٹ بینک کو بھی سمجھنا پڑے گا، عمران خان کا نام لینے سے بھی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، انھوں نے کیا کچھ کہا اور انھیں جیل کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے اور ان کے بعد ان کی جماعت نے انھیں ڈس کریڈیٹ نہیں کیا لیکن ان کے بارے میں بات کرنا، تشہیر کرنا یہ بھی بڑی ڈیبیٹ بن چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ سمجھنا پڑے گا کہ جب ایم کیو ایم نے اپنے بانی کو مائنس کیا تھا تو ایم کیو ایم کا بنیادی مقصد تھا اردو بولنے والوں کے حقوق کے لیے بات کرنا اس پر وہ کمپرومائز ہو چکی ہے۔ ایم کیو ایم سے جتنی بھی حکومتوں اور جماعتوں نے وعدے کیے تھے آج تک کسی پر عمل نہیں ہو سکا تو یہ ایک بار اپوزیشن میں بیٹھ جائیں تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کمپرومائز رہی ہے جس کی وجہ سے اس کا ووٹ بینک پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں توڑا، انھیں سبق سیکھنا چاہیے، ان کے آپس کے اختلافات سے بھی انھوں نے سبق نہیں سیکھا۔

ثنا مرزا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جب تک پیپپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے کراچی کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ چاہے کوئی بھی ملاقاتیں ہو رہی ہوں یہ دونوں پارٹی اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں جب تک یہ اپنے ایجنڈاز کو پسِ پشت رکھ کے آپس میں ٹیبل پر نہیں آئیں گے تب تک وفاقی حکومت ایم کیو ایم کے مطالبات مان سکے گی اور نہ پیپلز پارٹی مانے گی۔

تجزیہ کار امیرعباس نے کہا کہ ایم کیو ایم کو طے کرنا پڑے گا کہ کب تک وہ ایک آزاد سیاسی جماعت بن کر سامنے آئے گی یا وہ اسی طرح رہے گی، جہاں تک نہروں والا معاملہ ہے چند دن پہلے خود شہاز شریف کے وزیر اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بھانڈہ پھوڑ دیا کہ منٹس آف دی میٹنگ کے اندر زرداری صاحب موجود تھے اور اس میں پیپلز پارٹی شامل تھی اور اب یہ منافقت کی سیاست کیوں کر رہے ہیں۔

انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں کھڑی نہ ہوتیں تو نہروں سے پانی بہنا شروع ہو جاتا۔ چولستان کو سرسبز کرنے کا پراجیکٹ نہ اس حکومت کا ہے نہ انوار کاکڑ کے وقت ہوا۔ اس پراجیکٹ کو سرپرستی حاصل ہے وہ پاکستان کی مقتدرہ کی ہے اگر ان کا یہ فیصلہ ہے کہ ان نہروں کو چلنا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کچھ نہیں کرسکتی۔ کالا باغ ڈیم کا معاملہ تو ویسے ہی 20 ، 25 سال پیچھے چلا گیا۔

سینئرتجزیہ کار و سابق وفقی وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی ئے کہا کہ پاکستان کے پانی کا بڑا حصہ زرعی ایری گیشن کے فرسودہ نظام کے نتیجے میں ضائع ہوتا ہے، سندھ کو بھی آباد کر سکتے ہیں، ڈیلٹا کو بھی اور جو سسٹم ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے معاملے پر ماہرین بحث کر رہے ہیں، حقائق سامنے لائیں اور جو طریقہ ہے آئنی اسے تکنیکی طورپر حل کریں۔

اس حولے سے تجزیہ کار ثنا مرزا نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 2023 میں اس پراجیکٹ پر ڈیبیٹ شروع ہوئی تھی اور اس کے بعد ایک ساری خاموشی ہمیں سال ڈیڑھ سال نظر آئی اور اب اچانک سے اس مسئلے کو ہایئک مل جاتی ہے اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی جب وہاں کی مقامی جماعتوں کی جانب سے شور کیا جا رہا تھا اور اس مسئلے کے حوالے سے مکمل انڈراسٹینڈنگ بھی موجود نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ چونکہ کہا یہ جا رہا تھا کہ سندھ سے پانی لے لیا جائے گا جس سے مزید قحط پڑ جائے گا لیکن اس کے پیرائے میں دیکھا جائے پی پی کے پاس کوئی چوائس موجود نہیں تھی کہ وہ اس ایشو ٹیک اپ کرے اور وہ اس مسئلے کو ٹیک اپ نہیں کرتے تو وہاں کی مقامی پارٹیاں ان پر بات کرتیں، پیپلز پارٹی سے بات کی جائے تو کہتے ہیں ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، ان کور ایشوز پر پارلیمنٹ میں بات کیوں نہیں کی جاتی؟

مرتضٰی سولنگی نے سابق صدر عارف علوی کے انٹرویو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو اس وقت پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ ہے اس میں سب اپنا مالِ غنیمت کا حصہ لینا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انھوں نے متضاد بیان دیے ہیں، عارف علوی آئین اور جمہوریت کی بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ 3 اپریل 2022 کو انھوں نے ایک عمران خان کی غیر آئینی ایڈوائز پر قومی اسمبلی تحلیل کی اور وہ پاکستان کی تاریخ کے واحد منتخب صدر ہیں جنھوں نے پارلیمان کو غیر آئنی طور پر تحلیل کیا۔

انھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں ایک جج نے کہا کہ انھوں نے آئنی فراڈ کیا، میں تو مطالبہ کروں گا کہ عارف علوی، عمران خان اور قاسم سوری پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ ہونا چاہیے اور جب وہ واپس آئیں تو جواب دیں کہ وہ جو بے ایل اے کا بیانیہ دوہرا رہے ہیں کہ نہیں نہیں زیادہ لوگ مرے تھے تو وہ آ کر بتائیں کہ ان کے پاس ایسی کون سی معلومات تھیں۔

ثنا مرزا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ سلمان اکرم راجہ کس کے آدمی ہیں، وہ علیمہ خان صاحبہ کے کیمپ کا حصہ ہیں اور کبھی بھی نہیں چاہتیں کہ بات چیت ہو یا ڈائیلاگ ہو کہ خان صاحب باہر آئیں اور دوسرا گروپ وہ اس کیمپ کا حصہ نہیں لیکن اس کی خواہش ہے کہ کیسز ختم ہوں اور خان صاحب جیل سے باہر آئیں کیوں کہ پارٹی کا جو اس وقت حال ہو رہا ہے اس کو مد نظر رکھا جائے تو پارٹی مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔

انھون نے مزید کہا کہ عارف علوی صاحب امریکا میں چھٹیاں منانے تو گئے نہیں ہیں وہ وہاں جتنا پرو ایکٹیو ہیں اور تھنک ٹینک سے بات چیت کی کوشش کررہے ہیں اس کے کہیں نہ کہیں اثرات تو ہوں گے۔ اس کے جواب میں حکومت کیا ردعمل دیتی ہے وہ اپنی جگہ امر موجود ہوگا۔

ثنا مرزا کا کہنا تھا کہ عارف علوی صاحب بھی اسی مائنڈ سیٹ کا حصہ ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہییں، گنڈا پور کی عید کے دنون میں عمران خان سے ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا۔ ان کی پارٹی میں ڈسپلن کسے ہوگا، بیرسٹر گوہر صاحب جو پارٹی کے چیئرمین ہیں، کوئی ملاقات کے لیے جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کے خلاف میں تادیبی کارروائی کروں گا وہ برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے، پارٹی ایک پیج پر نہیں ہے، تقسیم واضح ہو چکی۔

Similar Posts