ایران کے سرحدی صوبے سیستان و بلوچستان کے ضلع مہرستان میں پیش آئے ایک دل دہلا دینے والے واقعے نے خطے کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں آٹھ پاکستانی مزدوروں کو رات کی تاریکی میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ تمام افراد ایران میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھے اور مرمت کی ایک دکان میں کام اور قیام کرتے تھے۔
ذرائع کے مطابق جاں بحق افراد میں سے پانچ کی شناخت ہو چکی ہے جن میں دلشاد، ان کے بیٹے نعیم، اور تین نوجوان جعفر، دانش اور ناصر شامل ہیں۔ دلشاد اس آٹو ورکشاپ کے مالک تھے جہاں حملہ آور رات کے وقت داخل ہوئے، مقتولین کے ہاتھ پاؤں باندھے اور انہیں قریب سے گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کر دیا۔
یہ واردات کسی عام جرم کا حصہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ منظم اور سوچے سمجھے دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اس خونریز حملے میں بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، جو ایران میں اپنے مضبوط نیٹ ورک اور محفوظ پناہ گاہوں کے باعث برسوں سے سرگرم ہیں۔
ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستانی مزدوروں کو ایران کی سرزمین پر نشانہ بنایا گیا ہو۔ گزشتہ برس جنوری میں بھی ایرانی صوبے سیستان میں ایک حملے کے دوران متعدد پاکستانی مزدوروں کو قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان نے آپریشن ”مرگ بر سرمچار“ کے تحت ایران میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم، حالیہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایران ان دہشت گرد تنظیموں کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دلخراش واقعہ نہ صرف ایرانی سرزمین پر سیکیورٹی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آیا ایران غیر ملکی باشندوں، خاص طور پر پاکستانی مزدوروں کی جان و مال کے تحفظ کو سنجیدہ لیتا بھی ہے یا نہیں۔
سیستان میں قتل مزدور جمشید کے گھر خبر پہنچنے پر کہرام برپا
دفاعی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے عالمی برادری کی خاموشی پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہی واقعہ پاکستان میں پیش آتا تو انسانی حقوق کے بین الاقوامی علمبردار اور قوم پرست تنظیمیں ریاستی اداروں پر تنقید کرنے میں ایک لمحہ ضائع نہ کرتیں۔
ایک دفاعی تجزیہ کار نے تلخ سوال اٹھایا کہ ’کیا پاکستانی مزدوروں کا خون اتنا سستا ہے کہ ان کے قاتلوں کی مذمت تک کرنے کی جرات بھی دنیا نہیں کر رہی؟ کیا ایران جیسے ملک کو غیر ملکی محنت کشوں کی سیکیورٹی کی کوئی فکر نہیں؟‘