پیٹرول سستا نہ ہوا، سڑکیں بنیں گی

0 minutes, 0 seconds Read

حکومت عوام کو خوشیاں دینے کے لیے نت نئے منصوبے بناتی رہتی ہے، عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں مسلسل کمی جاری ہے لیکن ایک بار پھر حکومت نے قیمت میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور قیمت برقرار رکھ کر حاصل ہونے والی رقم سے بڑا منصوبہ مکمل کرنے کا اعلان کردیا. بقول وزیراعظم شہباز شریف یک رو ہونے کی وجہ سے کراچی، حیدرآباد، سکھر اور خضدار کی قومی شاہراہیں خوں آشام ہیں، اور اضافی رقم کو ان سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کیا جائے گا۔

ابھی پچھلے ہی مہینے کی بات ہے جب عوام کو پیٹرول کی قیمت میں بڑی کمی کا یقین تھا، لوگوں نے تو یہ حساب بھی لگانا شروع کردیا تھا کہ ماہانہ کتنی بچت ہوگی لیکن حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم نہ کی بلکہ اس کی جگہ بجلی کی قیمت میں کمی کا فیصلہ کیا گیا، یعنی پیٹرول کی قیمت برقرار رکھنے سے جو رقم حاصل ہوگی اسے بجلی کے بلوں میں ریلیف کی صورت میں عوام کو لوٹایا جائے گا، ہر طرف سے واہ واہ اور صاحب سلامت کی صدائیں بلند ہوئیں۔

تھوڑا سے غور کریں تو یہ سامنے کی بات ہے کہ بجلی کی قیمت میں کمی کا اصل فائدہ کسے ہوگا؟ کیا اس غریب اور متوسط طبقے کو جو سو، پچاس یا دو ڈھائی سو یونٹ استعمال کرتا ہے یا پھر اس صنعت کار یا تاجر کو جو ہزاروں اور لاکھوں یونٹ استعمال کرتا ہے؟ اسی طرح اب سڑکیں بنائی جائیں گی، یقیناً سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے پہلے سے حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہوں گے تو کیا اس کی تعمیر کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی تھی؟ یا ہر منصوبے کے لیے یہ انتظار کیا جاتا ہے کہ پیٹرول سستا ہوگا تو اس میں سے بچت کریں گے۔

بہت پرانی بات نہیں ہے جب وزیراعظم صاحب نے خود بتایا تھا کہ بجلی کے بند پڑے کارخانوں پر سالانہ 9ارب روپے خرچ آتا تھا جبکہ انھیں بیچنے سے صرف 7 ارب روپے حاصل ہوئے۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے والے نجی کارخانوں سے عظیم الشان معاہدوں کا بوجھ بھی عوام کو ہی اٹھانا پڑا۔ یہاں پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

بجلی کے بند کارخانوں پر اخراجات کی منظوری کون دیتا رہا؟ یہ سلسلہ کتنے سال سے جاری تھا؟
آئی پی پیز سے معاہدہ کرنے والوں میں کون کون سے سیاست داں، بیوروکریٹس اور ماہرین شامل تھے؟
کیا ان ناجائز اخراجات کے ذمہ داروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے عہدے سے استعفا دیا؟
کیا کسی بھی سیاست داں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا؟
کیا کسی کو معمولی سی بھی سزا ملی یا چوہدری شجاعت کا مٹی پاؤ فارمولا اپنا کر سب آگے بڑھ گئے؟

اسی طرح موجودہ حکومت نے یہ یقین بھی دلایا تھا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے، حکومت اپنے اخراجات میں بھی کمی لانا چاہتی ہے، حکومت خرچے کم کرے گی، متعدد اداروں کی نجکاری کی جائے گی، ان میں پی آئی اے، اسٹیل ملز اور دیگر کئی ادارے شامل ہیں۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت نے ایسا کیا؟

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا گزشتہ روز اجلاس ہوا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ واپڈا کا 4 ارب کا منصوبہ 36 ارب روپے تک جا پہنچا۔ یہ تو چند واقعات ہیں جو حکومت کی مرضی سے عوام کے سامنے آجاتے ہیں، ورنہ سرکاری فائلوں میں ایسی کتنی ہوشربا داستانیں ہوں گی کہ خود کو عقل کل سمجھنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہے، بقول غالبؔ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

نجی سیکٹر بھی عوام کی کھال اتارنے میں پیچھے نہیں ہے، ویسے تو ہر سال رمضان میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے لیکن یہاں گزشتہ رمضان کا ذکر کرلیتے ہیں۔ چینی، فروٹ، گوشت سبزی مافیاز نے عوام کی جیب سے کھربوں نکال لیے، حکومت نے بیان داغا کے عوام کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی چند روز پہلے تسلیم کیا کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچے، مڈل مین ہاتھ دکھا رہا ہے۔

حکومت کا کام صرف اطلاعات فراہم کرنا نہیں ہے، اس کام کے لیے میڈیا اور بہت سے ادارے ہیں، حکومت کا کام ہر اس شخص کو چاہے وہ سیاست داں ہو، افسر شاہی یا کوئی اور، قومی خزانے کو تباہ و برباد کرنے اور عوام کو لوٹنے والے کو سزا دینا ہے۔ کسی اپوزیشن رہنما پر بکری چوری کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے تو اونٹ ہڑپ کرنے والے پر کیوں نہیں؟ یا پھر اس کے لیے بھی کسی کے جنبشِ ابرو کا انتظار کرنا ہوگا:

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

Similar Posts