امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل نے مئی میں ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ ہفتوں میں اس منصوبے کو روک دیا اور اس کے بجائے ایران سے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔
ٹرمپ کا یہ فیصلہ کئی ماہ کی اندرونی بحث و مباحثے کے بعد سامنے آیا، جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی گئی کہ آیا ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے یا سفارتی حل نکالا جائے۔ اس دوران ایران عسکری اور معاشی طور پر کمزور ہو چکا تھا۔
اس بحث نے امریکی کابینہ میں موجود سخت گیر عناصر اور وہ مشیران جنہیں ایران پر حملے کے نتائج پر شبہات تھے، کے درمیان اختلافات کو واضح کر دیا۔ بالآخر، امریکی قیادت اس بات پر متفق ہوئی کہ اس وقت فوجی کارروائی کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دی جائے۔
اسرائیلی حکام نے امریکی حکام کو بتایا تھا کہ ان کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے پیچھے دھکیلنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس میں کمانڈو آپریشنز اور بمباری شامل تھی۔ لیکن ان میں سے تقریباً تمام منصوبے امریکی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔
شمالی کوریا کی خفیہ، جدید ترین اور سب سے بڑے جنگی بحری جہاز کی تیاری، سیٹلائٹ تصاویر سے انکشاف
ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو واشنگٹن میں ملاقات کے دوران اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور اعلان کیا کہ امریکہ ایران سے براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات شروع کر رہا ہے۔ نیتن یاہو نے ملاقات کے بعد کہا کہ کسی بھی معاہدے کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے اگر امریکہ کی زیرنگرانی ایرانی تنصیبات کو تباہ کرنے کی اجازت ہو۔
رپورٹ کے مطابق، پچھلے سال ایران کو متعدد دھچکے لگے، جن میں حزب اللہ پر اسرائیلی کارروائی، شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، ایرانی میزائل ایندھن بنانے والی فیکٹریوں کی تباہی اور ایرانی و شامی فضائی دفاعی نظام کی تباہی شامل ہے۔ ان حالات میں اسرائیلی حکومت کے اندر ایران پر حملے کی حمایت میں اضافہ ہوا۔
ابتداء میں اسرائیلی حکام نے امریکی ہم منصبوں کو کمانڈو آپریشن اور فضائی حملوں پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، لیکن امریکی انٹیلیجنس اور عسکری حکام کو خدشہ تھا کہ یہ کارروائی ایک وسیع تر جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔
’امریکہ سے مدد نہیں مانگوں گا، میزائل سسٹم اب خریدوں گا‘، یوکرینی صدر کی خودداری جاگ گئی
ٹرمپ انتظامیہ کے بعض اعلیٰ حکام، بشمول جنرل مائیکل کریلا (سینٹکام کمانڈر) اور مشیر قومی سلامتی مائیکل والٹز، نے ابتدائی طور پر اسرائیلی حملے میں امریکی کردار پر غور کیا۔ اس سلسلے میں امریکی فوجی ساز و سامان مشرق وسطیٰ بھی منتقل کیا گیا، جس میں طیارہ بردار بحری جہاز، پیٹریاٹ میزائل سسٹمز، اور B-2 بمبار شامل تھے۔ اگرچہ یہ ہتھیار یمن میں حوثیوں کے خلاف کارروائی کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر یہ ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کی تیاری بھی سمجھے جا رہے تھے۔
اسی دوران، ایران نے بالواسطہ مذاکرات کی آمادگی ظاہر کی۔ صدر ٹرمپ نے مارچ میں ایران کو براہ راست بات چیت کی پیشکش کی، جس پر 28 مارچ کو ایران کی طرف سے مثبت اشارہ ملا۔
ٹرمپ حکومت کے اندر مذاکرات کی نوعیت پر اختلافات موجود ہیں، تاہم نائب صدر جے ڈی وینس سمیت بعض حکام کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کے پاس ایران سے ایک مؤثر معاہدہ کرنے کا نادر موقع ہے۔ اگر یہ مذاکرات ناکام ہو جائیں تو وہ اسرائیلی حملے کی حمایت کر سکتے ہیں۔
نیتن یاہو نے 3 اپریل کو ٹرمپ سے فون پر رابطہ کیا، لیکن ٹرمپ نے کہا کہ وہ فون پر ایران سے متعلق تفصیل سے بات نہیں کرنا چاہتے اور انہیں وائٹ ہاؤس مدعو کیا۔ ملاقات 7 اپریل کو ہوئی، جہاں اسرائیلی حملے کا منصوبہ زیر بحث آیا۔ تاہم، اسی دوران ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کا باضابطہ اعلان کر دیا۔
اس ملاقات کے بعد ٹرمپ نے سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کو اسرائیل روانہ کیا، جہاں انہوں نے نیتن یاہو اور موساد چیف کے ساتھ ایران سے نمٹنے کے مختلف امکانات پر بات کی، جن میں خفیہ کارروائیاں اور سخت پابندیاں شامل تھیں۔
غزہ اور ایران پر فیصلہ کن حملے کیلئے اسرائیل کونسے ہتھیار استعمال کرنے والا ہے؟
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز کے مطابق، ٹرمپ کی قیادت میں پورا سیکیورٹی نظام مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے یکسو ہے۔ انہوں نے کہا، ’صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور تمام آپشنز میز پر موجود ہیں۔‘
صدر ٹرمپ کی پالیسی، اس وقت، ایران پر براہ راست حملے کے بجائے دباؤ اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے پر مرکوز ہے۔ تاہم، اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو فوجی آپشن دوبارہ زیر غور لایا جا سکتا ہے۔