آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سے دہشت گردوں کو للکارنے، دو قومی نظریے کی بات کرنے اور کشمیر کا ذکر کرنے پر بھارتی ذرائع ابلاغ میں دو دن سے شور مچا ہوا ہے جس کے بعد جمعہ کے روز بھارتی دفتر خارجہ نے بھی پاکستانی آرمی چیف کے بیان پر ردعمل دیا ہے۔
آرمی چیف نے چند روز قبل اووسیز کنونشن سے خطاب میں دو قومی نظریے کی بات کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’کشمیر پر پاکستانی فوج اور حکومت کا موقف واضح ہے۔ ہم اسے نہیں بھولیں گے۔ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو نہیں چھوڑیں گے جو انڈیا کے قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘
دو قومی نظریے پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’ہمارے آباؤ اجداد سمجھتے تھے کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ہمارا مذہب الگ ہے، ہمارے رسم و رواج الگ ہیں۔ ہماری ثقافت الگ ہے اور ہماری سوچ الگ ہے۔ ہمارے عزائم مختلف ہیں۔ یہ دو قومی نظریہ کی بنیاد تھی۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کی وکالت کی جس کے مطابق برصغیر پاک و ہند کے ہندو اور مسلمان دو الگ الگ ’لوگ‘ ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ اسی بنیاد پر کیا گیا تھا۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم دو ملک ہیں، ہم ایک ملک نہیں ہیں، ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں، انھوں نے اس ملک کو بنانے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم اس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے خطاب میں بھارتی فوج کا بھی ذکر کیا ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں جو بھی چھوٹی موٹی دہشت گردی ہو رہی ہے اور جو لوگ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اس سے پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری نہیں آئے گی، انھیں اب میری بات صاف سننی چاہیے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دہشت گرد ہمارے ملک کی تقدیر ہم سے چھین سکتے ہیں؟‘
آرمی چیف کے اس بیان کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ میں دو دن سے خبریں شائع ہو رہی تھیں۔ انڈیا ٹوڈے نے آرمی چیف کے بلوچستان کے حوالے سے بیان کو 1971 کی صورت حال سے جوڑا جب کہ ہندوستان ٹائمز نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے الگ الگ ہونے کے حوالے سے نقطے پر واویلا مچایا۔
جمعہ کے روز پریس بریفنگ کے دوران بھارتی دفترِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال بھی اس معاملے پر بول اٹھے۔
پاکستانی آرمی چیف کے خطاب سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ شہ رگ میں کوئی غیر ملکی چیز کیسے ہو سکتی ہے۔’
ترجمان نے روایتی بھارتی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔