وائٹ ہاؤس نے جمعہ کے روز ایک نئی ویب سائٹ لانچ کی ہے، جس میں اس نظریے کی حمایت کی گئی ہے کہ کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ انسان کے بنائے ہوئے وائرس کی شکل میں چین کے شہر ووہان کی ایک بیماریوں کی تحقیقاتی لیبارٹری سے لیک ہوا۔
یہ ویب سائٹ اس بحث کو دوبارہ زندہ کرتی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے عالمی ادارہ صحت، امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور کانگریسی کمیٹیوں کے درمیان جاری رہی ہے۔ جنوری میں سی آئی اے نے ایک رپورٹ میں ”کم اعتماد“ کے ساتھ اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ وائرس لیبارٹری سے لیک ہوا ہو سکتا ہے، جب کہ انرجی اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھی اسی طرح کی رائے دے چکے ہیں۔
نئی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس میں ایک ایسا حیاتیاتی عنصر موجود ہے جو فطرت میں نہیں پایا جاتا، اور اگر وائرس کی قدرتی اصل کے شواہد موجود ہوتے تو اب تک سامنے آ چکے ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کی سابقہ ویب سائٹس — COVID.gov اور COVIDTESTS.gov — کو ری ڈائریکٹ کر کے اسی نئی ویب سائٹ پر بھیج دیا گیا ہے، جو اس نظریے کی تائید کرتی ہے کہ وائرس ووہان کی نیشنل بایو سیفٹی لیبارٹری سے غلطی سے باہر آیا۔
اس ویب سائٹ پر ریپبلکن پارٹی کی زیر قیادت ہاؤس سب کمیٹی کی رپورٹ ”After Action Review of the COVID-19 Pandemic“ بھی شائع کی گئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کورونا ویکسینز نے اگرچہ لاکھوں جانیں بچائیں، لیکن ان کی افادیت کو حکومت نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس میں ماسک لازمی قرار دینے، لاک ڈاؤنز، سوشل ڈسٹنسنگ، اور ویکسین کی پابندیوں کو ”نقصان دہ“ قرار دیا گیا ہے۔
امریکی ایف ڈی اے کمشنر مارٹی مکاری نے فاکس نیوز پر گفتگو کرتے ہوئے اس ویب سائٹ کا دفاع کیا اور کہا کہ ’لوگوں کو اس خوفناک دور کا کوئی منطقی انجام چاہیے۔ اگر انسان فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتا تو شاید کورونا کا یہ عذاب کبھی نہ آتا۔‘
نئی ویب سائٹ میں ڈاکٹر انتھونی فاؤچی اور دیگر طبی ماہرین کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، اور اس بات کا ذکر ہے کہ سابق صدر جو بائیڈن نے فاؤچی کو اس لیے معاف کیا تاکہ ٹرمپ کی واپسی کی صورت میں ممکنہ انتقامی کارروائی سے بچایا جا سکے۔
اگرچہ عالمی ادارۂ صحت اب بھی اس معاملے میں تمام امکانات پر غور کر رہا ہے، بیشتر سائنسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وائرس قدرتی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا، جیسا کہ ووہان مارکیٹ کے ابتدائی کیسز سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، نئی ویب سائٹ اس سائنسی اتفاقِ رائے سے مختلف مؤقف اختیار کرتی ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وائرس کسی لیب سے لیک ہوا۔
علمی برادری کا بھی کہنا ہے کہ وائرس کی اصل کا مکمل تعین ممکن نہیں ہے، اور یہ معاملہ شاید ہمیشہ مبہم ہی رہے۔