اسرائیل نے طبی عملے کے قتل کا اعتراف کرلیا، فوجی کمانڈر برطرف

0 minutes, 0 seconds Read

اسرائیلی فوج نے 23 مارچ کو غزہ میں طبی کارکنوں کے قافلے پر فائرنگ اور 15 کارکنوں کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ایک کمانڈر کو برطرف کر دیا ہے، جبکہ ایک اور افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا رہی ہے۔ فوج نے اس واقعے کو ’آپریشنل غلط فہمی‘ اور ’احکامات کی خلاف ورزی‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

23 مارچ کو غزہ میں ریڈ کریسنٹ کی ایمبولینسوں، اقوام متحدہ کی گاڑی اور فائر بریگیڈ کی گاڑی پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 14 طبی اہلکار اور ایک اقوام متحدہ کا کارکن جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ یہ گاڑیاں بغیر لائٹس کے مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہی تھیں اور ان کی شناخت ممکن نہ ہو سکی۔

ویڈیو شواہد نے دعوؤں کی قلعی کھول دی

واقعے کے بعد منظرِ عام پر آنے والی موبائل ویڈیو نے اسرائیلی فوج کے ابتدائی بیانات کی تردید کی۔

ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ گاڑیوں کی ایمرجنسی لائٹس روشن تھیں، طبی عملہ وردیوں میں موجود تھا اور گاڑیاں رکنے کے فوراً بعد ان پر فائرنگ کی گئی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 12 میٹر کے فاصلے سے کی گئی فائرنگ میں 100 سے زائد گولیاں چلائی گئیں۔

فوجی قیادت کی جانب سے کارروائی

تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی فوج نے اس کارروائی کو احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایک کمانڈر کو عہدے سے ہٹا دیا ہے۔

ایک دوسرے افسر کے خلاف بھی تادیبی کارروائی جاری ہے۔

فوجی ترجمان نے کہا کہ ”یہ واقعہ ہمارے آپریشنل معیار سے مطابقت نہیں رکھتا۔“

عالمی ردِعمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ

ریڈ کریسنٹ، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں جاری ہیں، جو اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد شروع کی گئیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک ان حملوں میں 51,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Similar Posts