ایران نے چابہار میں ایک عظیم خلائی مرکز کی تعمیر شروع کر دی ہے جو خطے میں اس کی گرتی ہوئی پراکسی طاقت کے بعد اس کے عالمی اثر و رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی ایک کوشش سمجھی جا رہی ہے۔ معروف نشریاتی ادارے بلومبرگ کے مطابق یہ خلائی اڈہ فلوریڈا کے کیپ کینیورل کی طرز پر تیار کیا جا رہا ہے، جو زمین کے خطِ استوا کے قریب ہونے کی وجہ سے راکٹ لانچنگ کے لیے نہایت موزوں ہے۔
یہ 54 مربع میل پر محیط کمپلیکس طاقتور خلائی گاڑیوں کو مدار میں بھیجنے کی صلاحیت رکھے گا۔ یہ منصوبہ دراصل ایران کی طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جسے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل، ایران کی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) ٹیکنالوجی کی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
امریکی اسٹریٹیجک کمانڈ کے کمانڈر جنرل انتھونی کاٹن کے مطابق، ایران کی دو مرحلوں پر مبنی، مائع ایندھن سے چلنے والی سیٹلائٹ راکٹ ٹیکنالوجی، جسے ’سیمُرغ‘ کہا جاتا ہے، ICBM کی تیاری کے عمل کو تیز کر سکتی ہے، کیونکہ دونوں ٹیکنالوجیز میں کئی مماثلتیں ہیں۔
ایران نے تحقیقی سیٹلائٹ کامیابی سے خلا میں لانچ کردیا
بلومبرگ کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران خلاء میں 20 انٹرنیٹ سیٹلائٹ بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جنہیں قاسم سلیمانی کے نام سے منسوب کیا جائے گا، وہ ایرانی جنرل جو 2020 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ ان سیٹلائٹس کے ذریعے ایران نہ صرف اپنے ہتھیاروں کی رہنمائی کو مزید بہتر بنا سکے گا بلکہ اپنے ردعمل کے وقت کو بھی مختصر کر سکے گا۔
رپورٹ کے مطابق، اگرچہ پروگرام کی کل لاگت کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی، لیکن ایک سینئر ایرانی اہلکار نے بتایا کہ پچھلے سال نومبر میں ایران کی خلائی ایجنسی کو تقریباً 11 ملین ڈالر فراہم کیے گئے تھے، باوجود اس کے کہ ایران شدید اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے۔
یہ منصوبہ روس کے ساتھ ایران کے اسٹریٹجک تعلقات سے بھی تقویت پا رہا ہے۔ جنوری میں ایرانی صدر مسعود پزیشکیان اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان 20 سالہ دفاعی و سائنسی معاہدہ طے پایا۔ اکتوبر میں روس سے ایران کے تیار کردہ دو سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گئے تھے، جب کہ ایران کے ڈرونز بھی روس کی جانب سے یوکرین میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اسی پیش رفت کے نتیجے میں، برطانیہ اور یورپی یونین نے ایرانی خلائی فورس کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل علی جعفرآبادی اور ایرانی خلائی ایجنسی پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
ایرانی صدر پزیشکیان نے فروری میں کہا، ’ہمارے دشمن ہمیں خودانحصاری سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان ہی رکاوٹوں نے ہمیں سائنسی اور تکنیکی ترقی کی طرف مائل کیا ہے۔‘
تاریخی سنگ میل عبور: پاکستان کا خلائی مشن چاند کے سفر پر گامزن
تجزیہ کار میتھیو شمیڈٹ کے مطابق، ایران اس وقت خلائی ٹیکنالوجی کو طاقت کے اظہار کا نیا ذریعہ سمجھ رہا ہے، خاص طور پر لبنان اور شام میں اپنی پراکسی طاقت کی ناکامیوں کے بعد۔
اگرچہ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا خلائی اور جوہری پروگرام صرف سویلین مقاصد کے لیے ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے یورینیم کو اس سطح تک افزودہ کیا ہے جو صرف ایٹم بم کی تیاری کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ایران حال ہی میں امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، جس میں عمان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم ان مذاکرات کی کامیابی ابھی غیر یقینی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ایران کا خلائی منصوبہ نہ صرف سائنسی بلکہ جغرافیائی اور عسکری طاقت کا مظہر بننے جا رہا ہے، جس پر دنیا بھر میں نظریں جمی ہوئی ہیں۔