حالیہ پہلگام کے پیش نظر مغربی بنگال کی ڈاکٹر نے مسلمان حاملہ خاتون کا علاج کرنے سے انکار کر دیا، جو بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی نفرت کی ایک افسوسناک مثال ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ڈاکٹر سی کے سرکار جو کستوریداس میموریل سپر اسپیشلٹی اسپتال میں ماہر امراضِ نسواں ہیں، نے حاملہ خاتون کا علاج کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ گزشتہ 7 ماہ سے انہی ڈاکٹر کے پاس زیرِ علاج تھیں۔
رپورٹ کے مطابق مریضہ کی رشتہ دار وکیل محفوظہ خاتون نے بتایا کہ ڈاکٹر نے نفرت انگیز باتیں کہیں۔ وکیل محفوظہ خاتون نے بتایا کہ ڈاکٹر نے کشمیر والے واقعے کے بعد کہا کہ میں کسی بھی مسلمان مریض کا علاج کرنے سے انکار کیا۔ ڈاکٹر نے حاملہ خاتون سے کہا کہ ہندوؤں کو تمہارے شوہر کو مار دینا چاہیے، تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔ تمام مسلمانوں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
معصوم کشمیریوں کا قتل عام، مودی سرکار کے جعلی انکاؤنٹرز کے ثبوت آگئے
یہ افسوسناک واقعہ حالیہ پہلگام حملے کے بعد سامنے آیا ہے، اور بھارتی سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور بیان بازی میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور یہ واقعہ اسی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔
فیس بک پر اپنے ایک بیان میں وکیل محفوظہ خاتون نے ڈاکٹر کے رویے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ”کھلی زیادتی اور امتیازی سلوک“ قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بھابھی شدید صدمے میں ہیں، مسلسل رو رہی ہیں، اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی زندگی کے لیے بھی خوفزدہ ہیں۔
ہندوستانیت ثابت کرنے کیلئے اسدالدین اویسی اسلام سے روگردانی پر تل گئے
انہوں نے کہا کہ اس نازک مرحلے میں ایک حاملہ خاتون کو علاج سے محروم کرنا نہ صرف طبی اخلاقیات کے خلاف ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ انہوں نے اسپتال انتظامیہ، طبی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
معروف سماجی کارکن مونا امبیگاؤنکر نے بھی اس واقعے پر شدید غصے کا اظہار کیا اور ڈاکٹر سرکار کو ”خطرناک مجرم“ قرار دیا اور عوام سے ان کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل بھی کی۔
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اور بھارت کے صحت کے نظام میں بڑھتی ہوئی مذہبی جانبداری پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔