پاکستان رینجرز کی تحویل میں آئے بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکار کو 80 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے، لیکن تاحال بھارت کی تمام تر منت سماجت کے باوجود اس کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی۔ بھارتی سپاہی پرنام کمار شا، جس کا تعلق بی ایس ایف کی 182 ویں بٹالین سے ہے، چند روز قبل پنجاب کے علاقے فیروزپور میں سرحد عبور کر کے پاکستانی حدود میں داخل ہو گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق بھارتی سپاہی اپنے سرکاری اسلحے اور مکمل وردی میں ملبوس تھا اور سرحدی باڑ کے قریب ڈیوٹی کے دوران پاکستانی علاقے میں داخل ہو گیا، جہاں پاکستان رینجرز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔
پہلگام واقعہ سیکیورٹی ناکامی ہے، پاکستان سے جنگ کی کوئی ضرورت نہیں، سدارامیا
اس واقعے کے بعد بھارتی حکام شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ تین مرتبہ فلیگ میٹنگز کے ذریعے سپاہی کی واپسی کے لیے پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی اور بہانہ بنایا گیا کہ ان کا سپاہی سایہ دار جگہ کی تلاش میں پاکستان میں داخل ہوا۔ لیکن پاکستان اپنی پوزیشن پر برقرار ہے۔ پاکستانی رینجرز نے بھارتی دعوے کے برعکس مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ سپاہی کی موجودگی سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق، بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل دلجیت چودھری نے بھارتی وزارت داخلہ کو اس واقعے پر بریفنگ دی اور اپنی حکومت سے سپاہی کی فوری واپسی کے لیے اقدامات کرنے کی التجا کی۔ اس دوران بھارتی سرحدی علاقوں میں بی ایس ایف کی تمام یونٹس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
ہندوستانیت ثابت کرنے کیلئے اسدالدین اویسی اسلام سے روگردانی پر تل گئے
ادھر سپاہی پرنام کمار شا کے اہل خانہ مغربی بنگال میں شدید پریشانی کے عالم میں ہیں اور بھارتی حکومت سے دہائیاں دے رہے ہیں کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو واپس لایا جائے۔
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔ بھارت، حسب معمول، پاکستان پر دہشتگردی کا بے بنیاد الزام لگا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب خود بھارت کا سپاہی پاکستان کی سرزمین پر اپنی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بنا بیٹھا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان رینجرز کے ساتھ فیلڈ کمانڈر سطح پر نئی فلیگ میٹنگ کی درخواست کی ہے تاکہ کسی طرح اپنی خفت مٹائی جا سکے۔ تاہم پاکستانی حکام اصولی موقف پر قائم ہیں کہ مکمل تحقیقات اور قانون کے مطابق ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔