بھارت میں عسکری قیادت کے ڈھانچے میں ہلچل مچ گئی ہے۔ پہلگام فالس فلیگ واقعے کے بعد اب ایک اور ہنگامہ خیز تبدیلی نے بھارتی فوجی اداروں کی اندرونی کمزوریوں کو آشکار کر دیا ہے۔ مودی حکومت کو ایک اور دھچکا اُس وقت لگا جب بھارتی فضائیہ کے نائب سربراہ ایئر مارشل ایس پی دھارکر کو اچانک عہدے سے ہٹا دیا گیا — وہ بھی صرف سات ماہ بعد۔
ذرائع کے مطابق ایئر مارشل دھارکر نے حکومت کی جنگجو پالیسیوں سے کھلے عام اختلاف کیا اور رافیل طیاروں کے حالیہ آپریشن میں پائلٹس کی کارکردگی پر شدید عدم اطمینان ظاہر کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ پاک فضائیہ کی بروقت اور مؤثر مداخلت نے رافیل طیاروں کو نہ صرف دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیا بلکہ بھارتی فضائیہ کی پوری حکمتِ عملی کو بے نقاب کر دیا۔
رافیل طیاروں کی ذلت آمیز ناکامی
گزشتہ رات لائن آف کنٹرول پر رافیل طیاروں نے جارحانہ پروازیں کیں جن کا مقصد پاکستانی دفاعی نظام کو چیلنج کرنا تھا۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ جدید پاکستانی ریڈار سسٹمز نے بھارتی طیاروں کے مواصلاتی نظام کو جام کر دیا، جس کے نتیجے میں رافیل طیارے راستہ بھول گئے اور آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی طرح ایک اور عبرت ناک ناکامی کا شکار ہو گئے۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارتی فضائیہ کے لیے شرمندگی کا باعث بنی بلکہ حکومت کو بھی سخت دفاعی مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کیا۔
قیادت میں تبدیلیاں اور اندرونی خلفشار
رافیل طیاروں کی اس ناکامی کے بعد ایئر مارشل ایس پی دھارکر نے نہ صرف پائلٹس کی تیاریوں پر سوال اٹھائے بلکہ مرکزی عسکری پالیسیوں پر بھی تنقید کی، جس کے بعد انہیں فوراً برطرف کر دیا گیا۔ ان کی جگہ ایئر مارشل نرمدیشور تیواری کو نائب فضائی سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے تاکہ بھارتی فضائیہ کے اندر بگڑتی ہوئی ہم آہنگی کو کچھ دیر کے لیے سہارا دیا جا سکے۔
یہ تنزلی اس وقت ہوئی جب چند روز قبل ہی شمالی کمان کے آرمی کمانڈر کو تبدیل کیا گیا تھا، جو پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے ناکام انجام کے بعد ممکنہ ردِعمل تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت عسکری اداروں میں عدم اطمینان اور بے یقینی کو دبانے کے لیے تیز رفتار تبدیلیوں پر مجبور ہو چکی ہے۔
سیاسی دباؤ یا ادارہ جاتی بغاوت؟
ایئر مارشل دھارکر کی برطرفی کو بھارتی سیاسی و عسکری حلقے ”خاموش بغاوت“ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت اب مودی حکومت کے فاشسٹ بیانیے کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔ فوجی ادارے جو پہلے صرف پیشہ ورانہ نظم و ضبط کے تابع تھے، اب سیاسی فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے جا رہے ہیں۔
ایک معروف دفاعی ماہر کے مطابق، ’ایئر فورس اور آرمی میں یہ تیز رفتار تبدیلیاں محض اتفاق نہیں۔ یہ اس گہری بداعتمادی کی علامت ہیں جو بی جے پی کے انتہاپسندانہ ایجنڈے اور افواج کی پیشہ ورانہ خودمختاری کے درمیان پنپ رہی ہے۔‘
مزید بغاوتوں کی پیش گوئی
دفاعی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہی حالات برقرار رہے تو آئندہ دنوں میں بھارتی افواج سے مزید سینئر افسران کے استعفے یا برطرفیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ خاص طور پر ان افسران کی جو جنگی بنیاد پرستی کے بجائے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور حقیقت پسندی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک بکھرتا ہوا عسکری منظرنامہ
رافیل طیاروں کی ہزیمت، ایئر مارشل کی برطرفی، شمالی کمان کی قیادت میں تبدیلی، اور پہلگام فالس فلیگ کی ناکامی — یہ تمام واقعات اس ایک گہرے بحران کی علامت ہیں جو بھارتی عسکری اداروں اور مودی سرکار کے درمیان پنپ رہا ہے۔ بی جے پی کے سیاسی مفادات کے لیے فوجی اداروں کو استعمال کرنے کی کوششوں نے بھارت کی عسکری خودمختاری اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو شاید بھارت کو اپنے اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے اثرات سرحدوں سے باہر نہیں، اندر ہی دیکھنے پڑیں۔