لاپتہ افراد کیس: ’بندے پیش کریں نہیں تو سی سی پی او اور آئی جی کیخلاف کارروائی کریں گے‘

0 minutes, 0 seconds Read

پشاور ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کیس میں آئی جی کی بجائے ایڈووکیٹ جنرل کے عدالت میں پیش ہونے پر جسٹس اعجاز انور کا برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ بندے پیش کریں نہیں تو سی سی پی او اور آئی جی کے خلاف کارروائی کریں گے، یہاں پر قانون نہیں ہے، دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کی بے عزتی کریں گے، تعلیم یافتہ اور معزز لوگ محفوظ نہیں ہے تو اور عام لوگوں کا کیا ہوگا؟۔

پشاور سے لاپتہ 5 شہریوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر دوبارہ سماعت جسٹس اعجاز انور، جسٹس ارشد علی اور جسٹس صاحب زادہ اسد اللہ پر مشتمل لارجر بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمان خیل اور سی سی پی او قاسم علی خان پیش ہوئے۔

آئی جی کی بجائے ایڈوکیٹ جنرل کے عدالت میں پیش ہونے پر جسٹس اعجاز انور نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی کیوں پیش نہیں ہوئے، ہم نے آئی جی کو بلایا تھا اے جی کو نہیں بلایا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آ ئی جی مصروف ہے، لاپتہ بندوں کی مقامی مجسٹریٹ کی عدالت سے ضمانت ہوئی ہے، اومان سے لڑکی لاہور آئی اور پھر پشاور آئی ہے، پولیس نے خاتون کی تلاش میں درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارا، درخواست گزار کے گھر سے خاتون کا سامان برآمد ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ کس قانون کے تحت آپ نے رشتہ داروں کو اٹھایا ہے، جرم کسی اور نے کیا آپ نے رشتہ داروں کو کیوں اٹھایا، جس پر ایڈوکیٹ جنزل نے کہا کہ ہمیں تو ایف آئی آر سے روکا گیا تھا۔

جسٹس ارشد علی نے کہا کہ آپ کو کس نے ایف آئی آر سے روکا ہے؟ عدالتی آرڈر میں کہا لکھا گیا ہے کہ ایف آئی آر درج نہ کریں۔

جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے کہا کہ آپ جو بات کررہے ہیں اے جی صاحب پھر آپ کہیں کہ ہمارے پاس ہے، آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ ہمارے سامنے اے جی نہیں ہے، اے جی صاحب آپ خود مطمئن نہیں ہے ہمیں کیسے مطمئن کریں گے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہمارے آرڈر کی خلاف ورزی کی گئی ہے، بندے پیش کریں نہیں تو سی سی پی او اور آئی جی کے خلاف کارروائی کریں گے، اے جی صاحب اس دن سے ڈرو جب آپ کے لوگ یہاں کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہمارے اے جی صاحب لاپتہ ہے اس کو بازیاب کریں، یہاں پر قانون نہیں ہے، دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے لوگوں کی بے عزتی کریں گے، تعلیم یافتہ اور معزز لوگ محفوظ نہیں ہے تو اور عام لوگوں کا کیا ہوگا، آپ بندے پیش کریں نہیں کریں گے تو پھر ہم توہین عدالت نوٹس جاری کریں گے، آئی جی اور سی سی پی او کے خلاف کارروائی کریں گے۔

سی سی پی او نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کا سامان درخواست گزار کے گھر سے ہوا ہے، خاتون کا پاسپورٹ، 2 موبائز اور ایک لیپ ٹاپ برآمد ہوا ہے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ جو سامان ریکور کیا ہے وہ ابھی پیش کریں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سی سی پی او کو سنا جائے، جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ اگر اس کا اختیار ہوتا تو ہم سن لیتے، جو سامان ریکور ہوا ہے وہ فوری طور پیش کیا جائے۔

5 افراد کی گمشدگی سے متعلق کیس: پشاور ہائیکورٹ کا فل کورٹ بنانے کا حکم

دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ نے 5 افراد کی گمشدگی سے متعلق کیس میں فل کورٹ بنانے کا حکم دے دیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور، جسٹس ارشد علی اور جسٹس صاحب زادہ اسد اللہ پر مشتمل لارجر بینچ نے 5 افراد کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر سماعت کی تاہم سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل، سی سی پی او عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس کیس میں مقدمہ درج کرلیں گے، ہمیں پیر تک وقت دیں، ریکور کرنے کی کوشش بھی کریں گے، ہمارے پاس نہیں ہے اگر ہمارے پاس ہوتے تو ہم پیش کرتے۔

جس پر جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ہم اس کے لیے فل کورٹ بنائیں گے، آپ نے کچھ پیش نہیں کیا کہ اس کے خلاف اومان میں کوئی کیس ہے۔

جسٹس ارشد علی نے کہا کہ آپ نے ایف آئی آر نہیں کی، کرسکتے تھے۔ عدالت نے کہا کہ آپ یہ ٹرینڈ ختم کریں کہ پہلے آپ گرفتار کرتے ہیں پھر مقدمہ درج کریں گے، ہم اس میں فل کورٹ بناتے ہیں، آرڈر کرتے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خاتون کا سامان پولیس نے کورٹ میں پیش کردیا ہے، پاسپورٹ، پرس اور دیگر اشیا، خاتون ابھی بھی مسنگ ہیں۔

عدالت نے کہا کہ معاملے پر فل کورٹ بنا دیتے ہیں، پھر معاملے کو دیکھ لیتے ہیں، یہ پریکٹس ختم کیا جائے جی پہلے تحقیق اور پھر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔

Similar Posts