سپریم کورٹ آف پاکستان نے سویلینز کے خصوصی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اہم کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے پچھلے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم سات رکنی بینچ نے فیصلہ پانچ اور دو کی اکثریت سے سنایا۔
عدالتِ عظمیٰ نے شہداء فاؤنڈیشن کی انٹرا کورٹ اپیلیں قبول کرتے ہوئے سویلینز کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی کے حق میں فیصلہ دیا۔
فیصلے کے مطابق، آئندہ سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ممکن ہوگی، اور خصوصی عدالتوں کا دائرہ اختیار برقرار رہے گا۔
سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2(1)(ڈی)(I)، 2(1)(ڈی)(II) اور 59(4) کو بھی بحال کر دیا ہے، جو سویلین افراد پر عدالتِ عسکریہ کے اطلاق سے متعلق ہیں۔
بینچ میں شامل جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن رضوی اکثریتی فیصلے میں شامل تھے، جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس سید محمد نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا اور الگ نوٹ لکھا۔
علاوہ ازیں، خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے اور ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔
پس منظر
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں 9 مئی 2023 کے پُرتشدد واقعات کے بعد فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا معاملہ قومی اور قانونی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کے لیے 6 دسمبر 2024 کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ایک سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا تھا، جس نے 9 دسمبر کو باقاعدہ سماعت شروع کی تھی۔
13 دسمبر کو عدالت نے ایک عبوری حکم میں فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 افراد کے خلاف فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمے کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
فوجی عدالتوں نے اسی بنیاد پر دو مرحلوں میں فیصلے سنائے۔ پہلا فیصلہ 21 دسمبر 2024 کو سنایا گیا جس میں 20 ملزمان کو 10 سال تک قید کی سزائیں دی گئیں، جب کہ دوسرا فیصلہ 26 دسمبر کو آیا جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے بھانجے حسان نیازی سمیت 60 ملزمان کو 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
یہ تمام عدالتی کارروائی 9 مئی 2023 کے ان پُرتشدد واقعات کے تناظر میں ہوئی جب القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا، جس کے بعد ملک گیر ہنگامے پھوٹ پڑے۔
لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو نذر آتش کیا گیا، کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ (جناح ہاؤس) پر حملہ ہوا، جی ایچ کیو راولپنڈی کا گیٹ توڑا گیا اور متعدد فوجی، سول و نجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔
ان مظاہروں کے دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے، جب کہ توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور بغاوت کے الزامات میں ملک بھر سے 1900 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں پی ٹی آئی کے مرکزی و علاقائی رہنما اور کارکنان شامل تھے۔