سپریم کورٹ کی جانب سے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اہم آئینی مقدمے کے فیصلے پر دو معزز جج صاحبان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
اپنے اختلافی نوٹ میں دونوں جج صاحبان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف اور صرف مسلح افواج کے اہلکاروں پر ہوتا ہے، اور سویلینز پر اس کا نفاذ آئین کی روح کے منافی ہے۔
انہوں نے آئین کے آرٹیکل 175 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کے قیام اور ان کے اختیارات آئین میں واضح طور پر درج ہیں، اور عدالتی نظام کو انتظامیہ (ایگزیکٹو) سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ آئین اور اسلامی اصولوں کے مطابق ہر شہری کو شفاف ٹرائل اور معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔
ججز نے آئین کے آرٹیکل 10-اے (حقِ شفاف ٹرائل) اور آرٹیکل 25 (تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک) کو بطور حوالہ پیش کیا اور کہا کہ ان شقوں کے تحت کسی بھی سویلین کو فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔
دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں دوٹوک انداز میں لکھا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور تمام مقدمات عام عدلیہ میں چلائے جانے چاہئیں۔
انہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ ان تمام گرفتار شدگان کو زیرِ سماعت قیدی (under-trial prisoners) کا درجہ حاصل ہوگا، جب تک کہ ان کے خلاف سول عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے۔
یہ اختلافی نوٹ اس بڑے فیصلے کا حصہ ہے جس میں سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو برقرار رکھا ہے اور فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو بحال کر دیا ہے.