ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ سانپ یا دیگر خطرناک جانوروں سے ڈرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ مگر حالیہ تحقیق نے اس پرانی سوچ کو چیلنج کر دیا ہے۔ بی بی سی ٹو کی ڈاکیومنٹری ’ دی ہیومن باڈی: سیکریٹس آف یور لائف ریویلڈ’ میں شامل ایک سٹڈی کے مطابق، جب نومولود بچوں کو سانپ دکھائے گئے تو انہوں نے خوف کا اظہار نہیں کیا بلکہ دلچسپی اور تجسس کا مظاہرہ کیا۔
ورجینیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ 11 ماہ کے بچے صرف اُس وقت سانپ کی تصویر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جب اُس کے ساتھ کسی خوفزدہ آواز کو سنایا جائے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جذباتی تناظر بچوں کے ردِعمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یعنی، اگر کوئی والدین سانپ دیکھ کر خوفزدہ ہو جائیں، تو بچہ اس ردِعمل کو محسوس کرکے وہی جذبہ سیکھ لیتا ہے۔ اگر ماحول میں ایسا منفی ردِعمل نہ ہو تو بچے عام طور پر تجسس سے سانپ کو دیکھتے ہیں اور خوف کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
خود کو 200 بار سے زیادہ سانپ سے ڈسوا کر تریاق حاصل کرنے کی کوشش
تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ بچوں کے خوف کا بڑا تعلق اُن کے ماحول اور اردگرد کے بڑوں کے رویے سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، آسٹریلیا جیسے ممالک میں جہاں زہریلے جانور عام ہیں، وہاں بچوں میں محتاط رویے کو فروغ دینا ضروری ہے۔ مگر دوسری طرف، اگر ہم ہر سانپ یا کیڑے کو دیکھتے ہی گھبراہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو بچے بھی یہی سیکھیں گے۔
گھر کے اے سی یونٹ سے سانپ نکل آئے، ویڈیو وائرل
چونکہ خوف ایک سیکھا ہوا رویہ ہے، اس لیے اگر ہم بچوں کے سامنے زیادہ متوازن، پراعتماد اور حقیقت پر مبنی رویہ اختیار کریں تو ہم اُنہیں بلاوجہ کی فوبیاز سے بچا سکتے ہیں۔ یہ نئی تحقیق ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم بچوں کی جذباتی تربیت بہتر انداز میں کر سکیں، خاص طور پر ایسے خوف کے حوالے سے جو اکثر زندگی بھر ساتھ رہتے ہیں۔