برطانیہ: طویل ترین سزا کاٹنے والا قیدی بے گناہ قرار

0 minutes, 0 seconds Read

برطانیہ میں قتل کے جرم میں 38 سال سزا کاٹنے والا کو عدالت نے بے گناہ قراردے دیا۔1986 میں ہونے والے قتل کیس میں پیٹرسلیوان کا ڈی این اے مقتولہ کے ڈی این اے سیمپل سے نہ ملنے سے اسکی بے گناہی ثابت ہوئی۔ سیلوان کو لیورپول کے قریب ایک بارٹینڈر خاتون کے قتل میں سزا ہوئی تھی۔

برطانیہ کی تاریخ میں سب سے طویل غلط سزا کاٹنے والے قیدی، پیٹر سلیوان، کو 38 سال بعد بے گناہ قرار دے دیا گیا۔ 1987 میں 21 سالہ ڈیان سنڈال کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے سلیوان کی سزا حالیہ ڈی این اے شواہد کی بنیاد پر ختم کی گئی۔

عدالت میں سلیوان نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور رہائی کی خبر پر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ 68 سالہ سلیوان برطانیہ کی تاریخ میں سب سے طویل غلط سزا کاٹنے والے زندہ قیدی قرار دیے گئے ہیں۔

مقتولہ سنڈال کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ سلیوان کو صرف اس بنیاد پر مجرم ٹھہرایا گیا تھا کہ کچھ گواہوں نے جائے وقوعہ کے قریب ایک شخص کو ”پیٹ“ کے نام سے پہچانا اور اُن کے دانتوں کے نشان مقتولہ کے جسم پر موجود تھے لیکن اب اس قسم کے شواہد کی ساکھ پر بھی سوال اٹھ چکے ہیں۔

سلیوان ذہنی طور پر کمزور اور آسانی سے اثر قبول کرنے والے شخص ہیں، جن سے بغیر وکیل یا مناسب بالغ کی موجودگی میں تفتیش کی گئی تھی۔

مقتولہ کی فیملی اور سلیوان دونوں کے اہلِ خانہ نے اس کیس کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ مرسی سائیڈ پولیس نے قتل کی نئی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے تاہم قومی ڈی این اے ڈیٹا بیس سے کوئی مماثلت نہیں ملی۔ اب تک 260 سے زائد افراد کو جانچ کے بعد کلئیر کیا جا چکا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اصل قاتل کا سراغ لگانے کے لیے نیشنل کرائم ایجنسی کی مدد سے کام کر رہے ہیں۔

Similar Posts