مڈل کلاس ’برانڈز‘ کے پیچھے کیوں بھاگتی ہے؟ ماہرین نے بتا دیا

0 minutes, 0 seconds Read

ایک وقت تھا جب لگژری برانڈز جیسے کہ لوئی ویٹون، رولیکس، اور گوچی صرف امیر ترین لوگوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج کل یہ عام بات ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد، تنخواہ دار پروفیشنلز، فری لانسرز اور انفلوئنسرز مہنگے برانڈز استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

سرمایہ کار اور مارکیٹ ماہر ابھیجیت چوکسی کے مطابق لگژری سستی نہیں ہوئی بلکہ مڈل کلاس کو امیر دکھنے کا شوق بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’لگژری اشیاء کی 75 فیصد خریداری مڈل کلاس سے آتی ہے۔ 1995 میں لوئی ویٹون کا 40 ہزار روپے والا بیگ صرف پیسے والوں کے لیے ہوتا تھا۔ 2025 میں وہی برانڈ 2.8 لاکھ روپے کا بیگ 30 سالہ تنخواہ دار افراد کو قسطوں پر بیچ رہا ہے۔‘

خود کو چھپا کر رکھنے والے دولت مند کو پہچاننے کے آسان خفیہ طریقے

انہوں نے مزید کہا کہ لگژری سستی نہیں ہوئی بلکہ متوسط طبقہ امیر دکھنے کا عادی ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ تبدیلی آمدنی میں اضافے کی وجہ سے نہیں آئی بلکہ سوشل میڈیا، ہوشیار مارکیٹنگ، اور معاشرتی دباؤ نے یہ خواہش پیدا کی کہ لوگ کامیاب نظر آئیں چاہے وہ حقیقت نہ ہو۔

چوکسی کا کہنا تھا کہ لگژری انڈسٹری نے لوگوں کی ”اسٹیٹس“ اور مقبولیت کی خواہش کو اپنی مارکیٹنگ کا ہتھیار بنایا۔ آج کل لوگ مہنگی گھڑیاں، ڈیزائنر بیگز یا برانڈڈ کپڑے آرام یا معیار کے لیے نہیں بلکہ تصویریں پوسٹ کرنے، فالوورز بڑھانے اور نمایاں ہونے کے لیے خریدتے ہیں۔

یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ اور پاکستانی مصنوعات کے فروغ کیلئے ’میرا برانڈ پاکستان‘ نمائش

لیکن اس سب کے پیچھے ایک خفیہ قیمت بھی ہے۔ کئی لوگ یہ قیمتی اشیاء قسطوں یا کریڈٹ کارڈز پر خرید رہے ہیں جس سے قرض بڑھ رہا ہے اور بچت یا سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔

Similar Posts