دنیا کا جدید ترین امریکی ایف 35 جنگی طیارہ یمنی میزائلوں سے بال بال بچ گیا، امریکہ میں گھبراہٹ

0 minutes, 3 seconds Read

امریکی جریدے ”نیشنل انٹرسٹ“ نے ”نیویارک ٹائمز“ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کا جدید ترین پانچویں جنریشن کا ایف-35 لڑاکا طیارہ یمن سے داغے گئے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل (SAM) سے تباہ ہونے سے بال بال بچا ہے۔

ایف-35 کو امریکہ کی فضائی قوت کے ”تاج کا جوہر“ سمجھا جاتا ہے، اس واقعے نے نہ صرف اس مہنگے طیارے کی بقا پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ حوثی قیادت میں چلنے والے نسبتاً سادہ فضائی دفاعی نظام کی مؤثریت پر بھی عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق کئی امریکی ایف-16 طیارے اور ایک ایف-35 حوثیوں کے فضائی دفاعی نظام کا نشانہ بننے سے بال بال بچے۔

پاکستان پر بھارتی حملے میں رافیل کی تباہی مغرب کے لیے ایک سبق ہے، جرمن اخبار

دفاعی تجزیہ کار گریگری برو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر لکھا کہ ’یہ امکان اب حقیقی بنتا جا رہا ہے کہ امریکی افواج جانی نقصان سے دوچار ہو سکتی تھیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ حوثیوں نے اب تک امریکی سینٹرل کمانڈ کے لیے استعمال ہونے والے سات MQ-9 ڈرونز کو مار گرایا ہے، جن کی قیمت تقریباً 3 کروڑ ڈالر فی ڈرون ہے، اور یہ کارروائیاں امریکہ کی انسدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حوثیوں کا فضائی دفاعی نظام اگرچہ سادہ اور پرانا ہے، مگر اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی نقل و حرکت ہے۔ یہ نظام کسی بھی وقت کہیں سے بھی حملہ کر سکتا ہے، جو اسے ناقابلِ پیشگوئی بناتا ہے۔ سادگی کی وجہ سے یہ نظام امریکی ٹیکنالوجی کے لیے جلدی قابلِ شناخت بھی نہیں ہوتا، جس سے امریکی دفاعی منصوبہ بندی کو چیلنج درپیش ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حوثیوں کو ایران کی جانب سے کچھ جدید میزائل نظام بھی ملے ہیں جن میں برق-1 اور برق-2 شامل ہیں۔ ان کی مکمل صلاحیتوں سے متعلق معلومات واضح نہیں، تاہم حوثی دعویٰ کرتے ہیں کہ برق-1 کی حدِ مار 31 میل اور برق-2 کی 44 میل ہے، جب کہ یہ 49,000 فٹ اور 65,000 فٹ بلندی پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان نے رافیل کے ساتھ فرانسیسی ’اسکیلپ‘ کروز میزائل بھی کامیابی سے تباہ کیا، یوکرینی میڈیا

رپورٹ میں اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ اگر ایک باغی گروہ امریکی فضائی کارروائیوں کو یمن میں اس قدر متاثر کر سکتا ہے، تو پھر وہ امریکہ، ایسے دشمن ممالک، جن کے پاس کہیں زیادہ جدید دفاعی نظام ہیں، ان کے خلاف فضائی برتری کیسے حاصل کرے گا؟ اور اگر ایف-35 جیسا جدید ترین اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ سرد جنگ کے زمانے کے فضائی دفاعی نظام سے بچنے میں ناکام ہے، تو یہ جدید دفاعی نظاموں کے خلاف کیسا کارکردگی دکھائے گا؟

مصنف نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر اس نتیجے پر زور دیا کہ زمین ہو یا فضا، صرف مہنگی اور جدید ٹیکنالوجی سے کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کم ٹیکنالوجی والے نظام بھی باآسانی جدید نظاموں کی مؤثریت کو متاثر کر سکتے ہیں۔

امریکی سہارے کے بغیر اسرائیل ایک ماہ بھی جنگ نہیں لڑ سکتا، یمنی فوج

دوسری جانب یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر نہ صرف جنگ کی باتیں بند کرے بلکہ زمینی حقیقت کا سامنا بھی کرے۔ یمنی فوج کے ترجمان نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ’اسرائیل جو آج ہمارے خلاف اکیلے جنگ لڑنے کی بڑھکیں مار رہا ہے، وہ یہ بھول گیا ہے کہ اس کا سارا دفاعی اور جنگی بجٹ امریکی فنڈنگ پر منحصر ہے۔‘

یمنی فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیل کے پاس موجود جدید ترین ہتھیار، جنگی طیارے، میزائل ڈیفنس سسٹمز اور انٹیلیجنس نیٹ ورک سب امریکہ کے فراہم کردہ ہیں۔ ’اگر کل کو امریکہ اپنی فوجی و مالی امداد بند کر دے تو اسرائیل ایک مہینے بھی میدانِ جنگ میں ہمارے سامنے ٹِک نہیں سکے گا‘۔

یمنی عسکری قیادت نے اسرائیلی قیادت کی حالیہ جارحانہ زبان کو سیاسی مایوسی کا شاخسانہ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کو اس غلط فہمی سے باہر آنا ہوگا کہ وہ ایک سپر پاور ہے۔ ’ہم نے اپنے بل بوتے پر امریکی ڈرونز مار گرائے، جنگی بحری جہازوں کو پیچھے دھکیلا، اور اب اسرائیل بھی ہماری جوابی طاقت کا اندازہ لگا لے گا۔‘

مودی کی رافیل ڈیل میں اربوں کی ہیرا پھیری کا انکشاف

یمن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب اسرائیل خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ممکنہ بڑے آپریشن کی بات کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یمن کی یہ دھمکی اسرائیل کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے، خاص طور پر اس وقت جب امریکہ خود مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری مداخلت کو محدود کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔

یمنی فوج نے آخر میں کہا کہ ’ہماری جنگ آزادی کی ہے، ہماری زمین اور خودمختاری کے لیے ہے۔ اور اگر اسرائیل واقعی سمجھتا ہے کہ وہ ہمیں جھکا سکتا ہے تو وہ تاریخ، حقیقت اور ہمارے عزم، تینوں سے ناواقف ہے۔‘

Similar Posts