چار روزہ سرحد پار ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی اگرچہ قائم ہے، مگر دونوں ممالک کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن وقتی اور غیر یقینی ہے۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، دونوں ملک خود کو کامیاب قرار دے رہے ہیں، مگر اصل جنگ بیانیے اور سفارتی اثر و رسوخ کی ہے جس میں بھارت کو واضح دباؤ کا سامنا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اچانک مداخلت اور جنگ بندی کے اعلان نے بھارت کو نہ صرف خفا کیا بلکہ اسے اس تنازع سے وہ برتری بھی حاصل نہ ہو سکی جس کی اسے امید تھی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد ہونے والی جنگ بندی تاحال قائم ہے، مگر صورتحال اب بھی انتہائی نازک اور غیر یقینی ہے۔ چار دن کی سرحد پار ڈرونز اور میزائل حملوں کے بعد دونوں ممالک نے وقتی طور پر جنگ بندی پر اتفاق کیا، لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ امن زیادہ دیر قائم رہنا مشکل ہے۔
دی گارجین کے مطابق دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کو ”کامیابی“ قرار دیا، مگر ماہرین کے مطابق اصل جنگ بیانیے اور اثر و رسوخ کی ہے — اور اس میں بھارت کو سفارتی نقصان کا سامنا ہوا ہے۔
بھارت کی عسکری کامیابی محدود، سیاسی دباؤ شدید
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ ”آپریشن سندور“ کے تحت پاکستان میں دہشتگردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ ہے۔ تاہم، ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کو وہ اسٹریٹجک برتری حاصل نہیں ہوئی جس کی امید تھی۔
بھارت کی جانب سے راولپنڈی جیسے حساس علاقوں میں میزائل داغے گئے اور کئی شدت پسند کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا، مگر بین الاقوامی سطح پر اس کی پذیرائی محدود رہی۔
پاکستان کا مؤثر میڈیا بیانیہ، بھارت دفاعی پوزیشن پر
پاکستانی حکومت کے وزراء اور ترجمان بین الاقوامی میڈیا پر متحرک رہے، اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے پانچ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے۔ بھارت کی جانب سے اس دعوے کی نہ تردید کی گئی، نہ تصدیق۔
اس کے برعکس، مودی حکومت نے اپنے میڈیا پر دباؤ ڈال کر اس معاملے کو نظرانداز کرایا، جس کے باعث ملک میں افواہوں، غلط خبروں اور جنگی جنون کو ہوا ملی۔
ٹرمپ کی ثالثی: بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کر کے نئی دہلی کو حیران اور خفا کر دیا۔ ٹرمپ کے مطابق یہ جنگ بندی امریکی سفارتی دباؤ اور تجارتی مداخلت کا نتیجہ تھی، جس پر بھارت نے شدید ردعمل دیا اور ان کے بیانات کو مسترد کر دیا۔
ٹرمپ کی ثالثی نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر دیا — جو بھارت ہمیشہ سے اپنا ”داخلی معاملہ“ قرار دیتا آیا ہے۔ پاکستان نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو خوش آمدید کہا، مگر بھارت نے خاموشی اختیار کی۔
کشمیر، پانی اور سفارتی جمود
جنگ بندی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سرحدیں بند ہیں، ویزا سروسز معطل ہیں اور دریائے سندھ معاہدہ بھی بھارت نے مؤخر کر رکھا ہے، جس سے پاکستان کی آبی ضروریات متاثر ہو رہی ہیں۔
اسلام آباد میں خلیجی ممالک یا لندن میں ممکنہ مذاکرات کی امید کی جا رہی ہے، مگر نئی دہلی فی الحال کسی بھی سفارتی بات چیت سے گریزاں ہے۔
دونوں ملکوں میں سیاسی فائدہ، امن کا امکان کم
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو داخلی سیاسی فائدہ ہو رہا ہے، بھارت میں قوم پرستی مودی حکومت کو مقبولیت دے رہی ہے، جبکہ پاکستان میں بھارت کا خطرہ فوج کے اثر و رسوخ کو مضبوط کر رہا ہے۔
ڈاکٹر چیتیجی باجپائی جنوبی ایشیا پر تحقیق کے سینئر ماہر کے مطابق امن مذاکرات کی کوئی سنجیدہ امید نہیں، دونوں فریق صرف اپنی بات کر رہے ہیں۔ اصل سوال اب یہ نہیں رہا کہ دوبارہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ کہ کب ہوگی؟