جب دنیا مجرموں سے منہ موڑ لیتی ہے، ریورنڈ جیف ہوڈ ان کے قریب آجاتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ان قیدیوں کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری لمحات میں ’بہترین دوست‘ بن جاتا ہے، اب نوبیل امن انعام کے لیے نامزد ہو چکا ہے۔ ان کی انسان دوستی، ہمدردی اور روحانی رفاقت کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔
امریکہ میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کے روحانی مشیر، ریورنڈ ڈاکٹر جیف ہوڈ، نوبیل امن انعام کے امیدوار بن گئے ہیں۔ یہ نامزدگی پروفیسر ڈیوڈ لیملی، جن کا تعلق پیپریڈائن یونیورسٹی، سدرن کیلیفورنیا سے ہے، کی جانب سے کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ہوڈ نے اب تک نو قیدیوں کی سزائے موت کے لمحات میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آئیں جنہیں معاشرہ مسترد کر چکا ہے۔
فرد جرم کیا ہے اور اس کا ملزم کے خلاف کیس پر کیا اثر ہوتا ہے؟
لیملی نے غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’وہ ان لوگوں سے محبت کرنے کے لیے خود کو وقف کر چکے ہیں جو معاشرے کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ یہ ’امن کی خاطر امن‘ ہے۔ صرف بھلائی کے لیے بھلائی۔ اور یہی وہ عمل ہے جو انعام کے لائق ہے۔‘
کہتے ہیں انسان انسان کا ساتھی ہے۔ ایک دوسرے کی وحشتوں کا ساتھی ہے، اور اپنی بات کسی سے کہنا چاہتا ہے خاص طور پر اس وقت جب وہ ٹوٹ چکا ہو۔ ہارا ہوا انسان اس دنیا سے جاتے سمے کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے، کوئی پیغام دینا چاہتا ہے۔
ریورنڈ ہوڈ کا کام صرف دعا کرنا یا مذہبی رسومات ادا کرنا نہیں بلکہ وہ قیدیوں کے آخری مہینوں میں ان کے قریب آتے ہیں، ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں، اور ان کا حوصلہ بنتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’میری ذمہ داری یہ ہے کہ جب کسی قیدی کے پاس صرف چھ یا تین مہینے باقی ہوں، تو میں ان کی زندگی میں داخل ہوں، ان کا سب سے قریبی دوست بنوں، تاکہ جب وہ دنیا چھوڑیں تو میں ان کے ساتھ ہوں۔‘
سزائے موت کے قیدی 12 سال بعد عدالتی احکامات پر رہا، فیصلہ کالعدم قرار
2022 میں امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اگر کوئی قیدی چاہے تو سزائے موت کے وقت اس کے ساتھ روحانی مشیر موجود ہو سکتا ہے۔ اسی فیصلے کے بعد سے ہوڈ نے اس فریضے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔
قیدیوں کے اہل خانہ بھی ہوڈ کے کردار کو دل سے سراہتے ہیں۔ ایک قیدی اسٹیون نیلسن کی بیوی، نوآ ڈوبوئیس نے کہا، ’جب آپ کو موت کی تاریخ معلوم ہو جائے تو آپ سوالات سے بھر جاتے ہیں۔ کیا میں اچھا انسان ہوں؟ کیا جنت و دوزخ ہے؟ کیا میں معاف کیا جاسکتا ہوں؟ جیف نے میرے شوہر کو ان سوالات کے طوفان میں سہارا دیا۔‘
امریکہ برطانیہ کا وہ نظام جس میں جرم ثابت ہونے پر بھی جیوری ملزم کو بری کر سکتی ہے
اسی طرح، سیلی میسن کہتی ہیں، ’میں نے جیف کو روتے دیکھا، جی بھر کے۔ اکثر مذہبی مشیر اس لمحے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، لیکن جیف کا دل ہر قیدی کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قیدی چاہے مجرم ہو یا بے گناہ، وہ ایک انسان ہے اور محبت کا حقدار ہے۔‘
ریورنڈ جیف ہوڈ کا کام ہمیں ایک گہرا پیغام دیتا ہے، انسانیت صرف نیک لوگوں سے محبت کرنے کا نام نہیں، بلکہ ان سے محبت کرنے کا بھی ہے جنہیں دنیا نے چھوڑ دیا ہو۔ نوبیل امن انعام ملے یا نہ ملے، لیکن ان کا کام امن، محبت اور سچائی کی ایک زندہ مثال ہے۔