تھیلیسیمیا جیسے موذی موروثی مرض میں مبتلا پاکستان کی چار سالہ بچی ایلسا نے چین میں جدید ترین جین ایڈیٹنگ تھراپی کے ذریعے مکمل علاج کے بعد نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔ بچی کو جنوری 2024 میں شنگھائی کے فودان یونیورسٹی چلڈرن اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں وہ اس علاج سے استفادہ کرنے والی پہلی غیر ملکی مریضہ بنی۔
ایلساجو مسلسل خون کی منتقلی پر انحصار کرتی تھی، اب مکمل صحتیاب ہو چکی ہے اور خون کے قدرتی نظام کے ساتھ نارمل زندگی کی طرف لوٹ چکی ہے۔ اس کامیاب علاج میں ’CS-101‘ نامی بیس ایڈیٹنگ دوا استعمال کی گئی، جس نے اس کے خون کے خلیات میں مطلوبہ تبدیلیاں پیدا کیں اور بیماری کے اثرات کو ختم کر دیا۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق ایلسا سمیت اب تک 4 مریض یہ تھراپی حاصل کر چکے ہیں، جن میں وہ سب سے کم عمر ہے۔ اس کامیابی پر اسپتال میں ایک خصوصی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا جہاں ڈاکٹروں، والدین اور عملے نے خوشی کا اظہار کیا۔
ایلسا کے والد محمد عدیل کے مطابق بچی خاندان کی تین بیٹیوں میں سے دوسری ہے۔ چونکہ بڑی بیٹی بالکل صحت مند ہے، اس لیے والدین نے شادی سے قبل یا حمل کے دوران جینیاتی ٹیسٹ نہیں کرائے تھے۔ بعدازاں معائنے میں انکشاف ہوا کہ دونوں والدین تھیلیسیمیا کے خاموش کیریئر ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے نے تھیلیسیمیا کے لاکھوں مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن روشن کر دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بالخصوص مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ جیسے علاقوں میں اس مرض سے متاثرہ افراد کے لیے ایک گیم چینجر بن سکتی ہے۔
یہ پیشرفت نہ صرف میڈیکل سائنس میں ایک اہم سنگ میل ہے بلکہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی ایک خوش آئند موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں جینیاتی علاج کی طرف سنجیدگی سے پیش قدمی کریں۔