بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے اقتدار سے علیحدگی کے آخری لمحات انتہائی ڈرامائی اور جذباتی تھے۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے پس منظر میں جو حالات سامنے آئے ہیں، وہ نہ صرف بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ کا دھچکا خیز باب ہیں بلکہ خطے میں سیاست، عوامی ردعمل اور طاقت کے توازن پر بھی سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
یہ تفصیلات چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں ایک حالیہ سماعت کے دوران بیان کیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح 5 اگست 2024 کی صبح شیخ حسینہ نے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے غصے میں کہا، ’پھر مجھے گولی مار دو اور مجھے یہیں گن بھون میں دفنا دو۔‘
پس منظر: احتجاج، کوٹہ سسٹم اور 500 ہلاکتیں
یہ تمام واقعہ ان شدید عوامی احتجاجات کے تناظر میں پیش آیا، جو سرکاری ملازمتوں میں متنازعہ کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری تھے۔ دو ماہ سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے دوران 500 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔
صورتحال اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ سیکیورٹی فورسز نے خود تسلیم کیا کہ ان کے پاس نہ تو مزید گولہ بارود بچا تھا اور نہ ہی طاقت باقی رہ گئی تھی۔
4 اگست کی رات: وزیراعظم ہاؤس میں ہنگامی اجلاس
چیف پراسیکیوٹر کے مطابق 4 اگست 2024 کی رات وزیراعظم ہاؤس (گنا بھابن) میں ایک نہایت پُر تناؤ اور جذباتی اجلاس ہوا، جس میں سینئر وزراء، فوج، فضائیہ، بحریہ اور پولیس کے سربراہان شریک ہوئے۔
سب سے پہلے اُس وقت کی اسپیکر ڈاکٹر شیرین شرمین چوہدری نے شیخ حسینہ کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا۔ تاہم، حکمران جماعت عوامی لیگ کے کئی سینئر رہنماؤں نے اس مشورے کو مسترد کر دیا۔
اجلاس میں اُس وقت کے دفاعی مشیر میجر جنرل (ر) طارق احمد صدیقی نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے فوج کو مظاہرین پر گولی چلانے کی تجویز دی، یہاں تک کہ مظاہرین پر ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کا بھی ذکر کیا گیا۔
اس پر بنگلہ دیش ایئر فورس کے سربراہ نے شدید ردعمل دیا اور کہا، ’یہ (طارق) آپ کو پہلے بھی لے ڈوبا تھا، اور اب بھی لے ڈوبے گا۔‘
5 اگست کی صبح: فیصلہ کن لمحات
اگلی صبح، جیسے ہی مظاہرین گنا بھابن کے قریب پہنچنے لگے، فوج اور پولیس نے حسینہ سے ایک بار پھر استعفیٰ کی اپیل کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا، ’پھر مجھے گولی مار دو اور مجھے یہیں دفنا دو۔‘
صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی تھی۔ پولیس فورس نے اعتراف کیا کہ وہ مکمل طور پر تھک چکی ہے، ان کے پاس نہ ہتھیار ہیں اور نہ ہی مزید مقابلہ کرنے کی سکت۔
شیخ حسینہ کی بہن اور بیٹے کا کردار
اس نازک موقع پر شیخ حسینہ کی بہن، شیخ ریحانہ نے انہیں استعفیٰ دینے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہاں تک کہ وہ حسینہ کے قدموں میں گر گئیں، لیکن حسینہ نے پھر بھی انکار کر دیا۔
بالآخر فوج نے ان کے بیٹے سجیِب واجد جوائے سے رابطہ کیا، جو اُس وقت امریکہ میں مقیم تھے۔ جوائے نے اپنی والدہ کو مسلسل خونریزی سے بچنے کے لیے اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کیا۔
شیخ حسینہ نے رخصتی سے قبل قوم سے خطاب ریکارڈ کرانے کی خواہش ظاہر کی، مگر فوجی افسران نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انہیں صرف 45 منٹ دیے گئے، کیونکہ ہزاروں مظاہرین گنا بھابن کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔
شیخ حسینہ نے پھر اپنی بہن کے ہمراہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت کا رخ کیا۔ یوں بنگلہ دیش میں ان کے 15 سالہ طویل اقتدار کا اختتام ہوا۔