سلامتی کونسل میں پاکستانی مندوب عاصم افتخارنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی روکنے کا وقت آ گیا ہے۔ صورتحال انسانی ہاتھوں سے جنم دیا المیہ ہے، بھوک کو ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں جاری مظالم روکنے کے لیے اب صرف الفاظ کافی نہیں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال اور خوراک کی فراہمی روکے جانے پر اجلاس ہوا۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قدرتی نہیں انسانوں کی پیدا کردہ تباہی ہے، اسرائیل کی غزہ میں امداد کی ناکہ بندی نے ناقابلِ تصور انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری مظالم روکنے کے لیے اب صرف الفاظ کافی نہیں ہیں۔
عاصم افتخار نے کہا کہ فلسطینی عوام کی بے دخلی کسی صورت قبول نہیں ، دو ریاستی حل ضروری ہے ، تاریخ ہمیں ذمہ داری کی عدم ادائیگی پر معاف نہیں کرے گی ، اس وقت پچپن ہزار فلسطینی خواتین حاملہ ہیں، اگلے ماہ پانچ ہزار خواتین بچوں کو جنم دیں گی.
پاکستانی مندوب نے اسرائیلی رہنماؤں کے الاقصیٰ کمپاؤنڈ کے دورے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ الاقصیٰ کی حرمت کا احترام کرنا چاہیے۔ عاصم افتخار نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو عملی طور پر روکنا ہو گا۔ چین نے بھی غزہ میں انسانی المیہ روکنے اور فوری طور پر سیزفائر کا مطالبہ کیا۔
الجیریہ کے سفیر نے ماہر اطفال ڈاکٹر آلا النجر کے نو شہید بچوں کا تذکرہ کیا۔ انکی تقریر کے دوران دہشتگرد اسرائیل سفیر اپنے موبائل سے کھیلتا رہا۔
دوسری جانب متحدہ عرب امارات نے بھی سخت ردعمل دیتے ہوئے اسرائیل کے سفیر کو طلب کر لیا اور فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔
امریکی سرجن ڈاکٹر فروز سلوا نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جہاں طبی سہولتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد میں نے اپنی زندگی کی سب سے ہولناک خون ریزی دیکھی۔ ایک صبح نوے لاشیں اسپتال لائی گئیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔