فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، ججز اختلافی نوٹ

0 minutes, 0 seconds Read

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ججز جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل درست قرار دینے پر تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔

واضح رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 2-5 کی اکثریت سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دے دیا تھا، حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کردیا گیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا ان کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا، اختلافی تفصیلی نوٹ 36 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہم اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپیلیں مسترد کرتے ہیں، برطانوی فوجی قانون کی بنیاد 1689 کے میوٹنی ایکٹ سے پڑی، فوجی عدالتی نظام کا مقصد نظم، اخلاقیات اور ڈسپلن کو فروغ دینا ہے، ملٹری لا صرف سزا نہیں بلکہ فوجی نظم و ضبط کا جامع نظام ہے، آئین کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق پرسمجھوتہ ممکن نہیں۔

ججز نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ تقسیم ہند سے قبل بھارتی فوج ایکٹ 1911’ کے تحت چلتی تھی، 1911 کا قانون فوجی نظم و ضبط کے لیے جدید ضابطہ تھا، 1911 کا ایکٹ فوجیوں کے حقوق و فرائض کی وضاحت کرتا تھا، خصوصی عدالتیں صرف فوجیوں کے خلاف محدود دائرہ اختیار رکھتی تھیں، کورٹ مارشل صرف فوجی خدمات سے متعلق ہوتے ہیں، صرف فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر کورٹ مارشل کیا جا سکتا تھا۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، قرآن اور نبی آخر الزمان ﷺ نے بھی غیر جانبدارعدلیہ کا درس دیا، حضرت عمر فاروق نے عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ رکھا، اسلامی تعلیمات کو قرارداد مقاصد کا حصہ بنایا گیا، آئین میں انہی تعلیمات کے تحت عدلیہ کو آزاد رکھا گیا، عدلیہ کا اختیار کسی ایگزیکٹو ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔

ججز نے نوٹ کہا کہ یہ کہنا کہ دنیا میں دہشت گردی مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں، درست نہیں، یہ درست ہے کہ عام فوجداری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے، عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات میں آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

نوٹ میں کہا گیا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوج داری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوج داری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے جو کہ ناقابل فہم ہے۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں ججز نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے مقدمات کو سمجھنے کے بجائے اپنے مقصد کے لیے فوجی عدالتوں پر انحصار کررہی ہیں، عام فوج داری عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟

Similar Posts