آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں پاکستان کی معاشی صورتحال، ٹیکس پالیسی، صنعتوں کے مسائل اور بجٹ 2025-26 سے وابستہ امیدوں و تحفظات پر ماہرین نے تفصیلی گفتگو کی۔ پروگرام کے میزبان شوکت پراچہ کے سوالات کے جواب میں سابق وزیر ہمایوں اختر، سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور وفاقی وزیر قیصراحمد شیخ نے ملکی معیشت کی جڑوں سے جڑے مسائل پر کھل کر رائے دی۔
”بند صنعتیں اور سکڑتی ہوئی مینوفیکچرنگ معیشت کے لیے خطرہ“
آج نیوز کے پروگرام روبرو میں سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر نے بجٹ میں صنعتی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر صنعتیں چلیں گی تو ہی ایکسپورٹ بڑھے گی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بہت سی صنعتیں بند پڑی ہیں۔ ہمیں بجٹ میں دیکھنا ہے کہ ان کو دوبارہ چلانے کے لیے کیا کیا گیا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا مینو فیکچرنگ سیکٹر ملک کے مجموعی ٹیکس کا 75 سے 80 فیصد دیتا ہے، مگر حکومتی پالیسیوں نے اس سیکٹر کو نظرانداز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عام انڈسٹری 55 سے 60 فیصد ٹیکس دیتی ہے، مگر اسے جو ریٹرن ملتا ہے وہ کم ہے۔ تنخواہ دار طبقہ اور انڈسٹری دونوں کو نچوڑا جا رہا ہے۔
”نئے پلانٹس لگانا پاکستان میں وارا نہیں کھاتا“
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ وہ تین بڑی انڈسٹریز سے وابستہ ہیں، آئی ٹی، ٹیکسٹائل اور مینوفیکچرنگ۔ لیکن موجودہ معاشی اور ٹیکس ماحول میں نئی سرمایہ کاری ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں نیا پلانٹ لگانا وارا نہیں کھاتا۔ ٹیکس ریٹ اتنے زیادہ ہیں کہ صنعتکار 60 فیصد حکومت کو دے کر صرف 40 کماتا ہے۔
شبر زیدی نے کہا پاکستان کی تقریباً 150 ٹیکسٹائل ملیں بند پڑی ہیں اور مقامی طور پر معیاری کاٹن دستیاب نہیں، جبکہ امپورٹڈ یارن کی قیمت مقامی پیداواری لاگت سے کم ہے، جو صنعت کے لیے نقصان دہ ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آرنے خبردار کیا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ڈی انڈسٹرلائز ہو رہا ہے، اگر ہم نے چائنا فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر نظر ثانی نہ کی تو چھوٹی اور درمیانی صنعتیں کبھی ترقی نہیں کریں گی۔
ٹیرف کے سوال پر انھوں نے جواب دیا کہ اس سے مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کو بنیادی نقصان ہوگا، آج ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہے اور اس کا فوری حل بھی نہیں ہے اور ماضی کے 20 سال سے ابتک کچھ کیا بھی نہیں ہے، کوئی پلان نہیں کہ جس کے تحت ہم آگے بڑھیں، یہ جو ہم ہواؤں میں رہتے ہیں ہم اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم معاشی طور پر کمزور ملک ہیں، جسے صحیح ہونا ہے ایک دوسرے کی حکومتوں پر الزام دھرنا یہ ساری بے کار کی باتیں ہیں۔
”انڈسٹری کے بغیر ترقی ممکن نہیں“
وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ نے آج نیوز کے پروگرام “ روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمایوں اختر اور شبر زیدی کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ انڈسٹری کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ روزگار، ایکسپورٹ اور ویلیو ایڈیڈ پراڈکٹس سب انڈسٹری سے جڑے ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ زونز میں انکم ٹیکس اور ڈیوٹیز پر چھوٹ دی ہے، لیکن آئی ایم ایف ان پر اعتراض کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ٹیکس استثنیٰ نہ دیں، جبکہ ہم پہلے سے صنعت کاروں کو کمٹمنٹ دے چکے ہیں۔
قیصر شیخ نے اعتراف کیا کہ مقامی مارکیٹ میں کاٹن پر 18 فیصد ٹیکس ہے، جبکہ امپورٹڈ مال کو ایکسپورٹ کے نام پر بغیر ٹیکس کے منگوایا جا رہا ہے، جو مارکیٹ میں بیچا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے، SME سیکٹر کو سہولیات نہیں مل رہیں، جب میں چیئرمین کمیٹی بنا، میں اسٹیٹ بنک سے لڑتا رہا ہوں کہ لان کس کو ملتا رہا اور جو امیر لوگ تھے ان کو ملین ڈالرز میں لان ملتا رہا جبکہ ڈالر ہی ہمارے پاس نہیں تھے، ہمیں سر جوڑ کر سوچنا ہے کہ کیا کیا۔