چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایسے بہت سے تنازعات موجود ہیں جو کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ خطے میں اب بھی غیر حل شدہ تنازع کشمیر موجود ہے۔
اپنے خطاب میں جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ آزاد دنیا کے رکھوالوں نے خود ہی ریاستی خود مختاری، علاقائی سالمیت، انسانی حقوق، عالمی قانون اور انصاف کی قدر کو پامال کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج طاقت اور مفاد، اخلاقیات اور اصولوں سے بالاتر ہو چکے ہیں۔
جنرل ساحر شمشاد نے زور دیا کہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو کشیدگی کے خطرات میں کسی بھی ابہام کو ختم کر سکیں کیونکہ نظریاتی یا علاقائی اختلافات کو دبانے سے انہیں حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی فضا میں کوئی میکنزم کام نہیں کرتا اور پائیدار کرائسس مینجمنٹ کے لیے باہمی برداشت، ریڈ لائن کی پاسداری اور مساوات ناگزیر ہیں۔
ایران کی ملٹری ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں، ایرانی وزارت خارجہ
انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک بنیادی اسٹیک ہولڈرز کو کمزور سمجھا جائے گا، کوئی فریم ورک کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ استحکام کا حصول شراکت داری کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ ایڈہاک رسپانسز ناکافی ہیں۔ ہمیں اجاراداری، پروٹوکول، ہاٹ لائنز، کشیدگی میں کمی کے طے شدہ طریقہ کار اور مشترکہ کرائسز مینجمنٹ مشقوں کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور بھارت سرحدی فوجوں میں کمی کا عمل مکمل کرنے کے قریب ہیں، جنرل ساحر شمشاد مرزا
قبل ازیں، ایک انٹرویو کے دوران چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ پاکستان اور بھارت اپنی سرحدوں پر تعینات اضافی افواج کو اس سطح تک واپس لانے کے قریب ہیں جو حالیہ تنازع سے پہلے تھی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ بحران نے مستقبل میں کسی بڑی کشیدگی کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ ’ہم تقریباً 22 اپریل سے پہلے کی صورتحال پر واپس آ چکے ہیں… یا شاید اب تک پہنچ چکے ہوں۔‘
یاد رہے کہ رواں ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں کے بدترین چار روزہ تصادم میں لڑاکا طیارے، میزائل، ڈرونز اور توپ خانے استعمال کیے گئے، جس کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس کشیدگی کا آغاز 22 اپریل کو بھارتی کشمیر میں ہونے والے حملے سے ہوا، جس میں 26 افراد، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، مارے گئے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کر دیا۔
7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی کارروائیاں کیں اور دونوں ملکوں نے سرحد پر اضافی فوجی تعینات کیے۔
پاکستان نے بھارتی جارحیت کا صرف جواب نہیں دیا بلکہ بازی ہی پلٹ دی، وزیراعظم
سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے موقع پر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ اگرچہ حالیہ تنازع میں جوہری ہتھیاروں کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن صورتحال انتہائی خطرناک تھی۔ انہوں نے کہا، ’اس بار کچھ نہیں ہوا، لیکن کسی بھی وقت اسٹریٹیجک غلطی کو خارج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بحران کے دوران ردعمل مختلف ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس بار کشیدگی صرف متنازعہ علاقے کشمیر تک محدود نہیں رہی بلکہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے مین لینڈ میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
جنرل مرزا نے خبردار کیا کہ یہ ایک ”خطرناک رجحان“ ہے کیونکہ اس سے دونوں جوہری ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کی حد کم ہو گئی ہے، اور مستقبل میں کوئی تنازع پورے پاکستان اور پورے بھارت تک پھیل سکتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق یہ تنازع امریکا، بھارت اور پاکستان کی خفیہ سفارتی کوششوں کے باعث ختم ہوا، جس میں واشنگٹن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم بھارت نے کسی تیسرے فریق کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تمام معاملات دوطرفہ بنیاد پر حل کیے جائیں گے۔
جنرل مرزا نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کا کرائسس مینجمنٹ میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں عالمی برادری کے لیے ثالثی کا وقت بہت محدود ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کا وقت بہت کم ہو گا اور ممکن ہے کہ تب تک نقصان ہو چکا ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن اس وقت صرف ڈی جی ایم اوز کے درمیان کرائسس ہاٹ لائن اور چند سرحدی سطح کی ٹیکٹیکل ہاٹ لائنز کے سوا کوئی اور رابطہ موجود نہیں۔
یمنی فوج نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو اسرائیل چھوڑنے کیلئے الٹی میٹم دے دیا
جنرل مرزا نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کی بیک چینل بات چیت یا غیر رسمی رابطے نہیں ہو رہے اور نہ ہی ان کی بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا کوئی منصوبہ ہے، جو شنگریلا ڈائیلاگ میں شریک ہیں۔
انہوں نے کہا، ’یہ مسائل صرف مذاکرات اور مشاورت سے حل ہو سکتے ہیں، میدان جنگ سے نہیں۔‘