’زندگی گلزار ہے‘ لیکن تب جب زندگی کامیاب ہے!

0 minutes, 0 seconds Read

دنیا کی فکری تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی گزری ہیں جنہوں نے اپنے خیالات، اصولوں اور عملی زندگی سے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن گئیں۔ ان عظیم ہستیوں میں ایک نام کنفیوشس کا بھی ہے، جو 551 قبل مسیح میں چین کے ایک چھوٹے سے شہر ”کوفو“ میں پیدا ہوا۔ کنفیوشس نہ صرف ایک فلسفی اور معلم تھا بلکہ اخلاقیات، معاشرت اور انسان دوستی کا علمبردار بھی تھا۔

کنفیوشس کا بچپن معاشی تنگی اور ذہنی اضطراب کے سائے میں گزرا، لیکن ان مشکلات نے اس کے اندر ایک ایسی فکری تڑپ کو جنم دیا جو اسے سچ اور حق کی تلاش میں لگا دیتی ہے۔ صرف 15 سال کی عمر میں وہ تعلیم کی طرف مائل ہوا اور پھر ساری زندگی علم کے فروغ، سماجی اصلاحات اور اخلاقی اقدار کے فروغ میں لگا دی۔

مسلمان سائنس دان نے قرنطینہ کا تصور سب سے پہلے کیسے پیش کیا تھا؟

کنفیوشس نے جس فکر کو فروغ دیا، وہ بعد ازاں ’کنفیوشس ازم‘ کے نام سے جانی گئی۔ اس کے ماننے والے اسے ’کنگ فوزے‘ یعنی ’استاد کنگ‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ کنفیوشس کا پیغام سادگی، صداقت، عدل، خلوص اور باہمی احترام پر مبنی تھا۔ اس کی تعلیمات میں روحانی فلسفہ کم اور عملی اخلاقیات کا غلبہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے افکار مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان مقبول ہوئے۔

شاگردوں کی جماعت اور علمی ورثہ

کنفیوشس نے تین ہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے 70 سے زائد نے بطور مفکر اور استاد شہرت حاصل کی۔ اس کے اقوال اور افکار کو اس کے شاگردوں نے قلمبند کیا، جن کا ایک مجموعہ ’گلدستۂ تحریر‘ (The Analects) کے نام سے معروف ہوا۔ اس کتاب میں کنفیوشس کے وہ اصول محفوظ ہیں جو آج بھی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے چراغِ راہ ہیں۔

کنفیوشس کے چند سنہری اقوال

  • ”اس شخص سے کبھی بھی دوستی نہ کرو جو تم سے بہتر نہ ہو۔“
  • ”جب تم غصے میں ہو، تو اس کے بعد کے نتائج کے بارے میں سوچو۔“
  • ”اگر تم یہ جان جاؤ کہ تم اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے، تب بھی مقصد کو نہ بدلو بلکہ اپنے اعمال کو بدلو۔“
  • ”اگر تم نے نفرت کی، تو تم ہار گئے۔“
  • ”عظمت یہ نہیں کہ انسان کبھی نہ گرے، بلکہ یہ ہے کہ وہ گر کر دوبارہ اٹھ کھڑا ہو۔“

قدیم یونانی فلسفی ارسطو کا مقبرہ دریافت

عالمی اثرات

کنفیوشس کے افکار نہ صرف چین بلکہ کوریا، جاپان، تائیوان، ہانگ کانگ، مکاؤ، ویتنام اور سنگاپور جیسے ممالک میں بھی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثر انداز ہوئے۔ اس کے خیالات نے تعلیمی نظام، خاندانی اقدار، حکومتی اصولوں اور معاشرتی رویوں کو ایک مثبت رخ دیا۔

آج جب دنیا بےچینی، بداعتمادی اور اخلاقی زوال کی لپیٹ میں ہے، کنفیوشس کے خیالات ایک بار پھر ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ اس کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ زندگی میں اصول، اخلاص، خلوص نیت اور احترامِ آدمیت سے ہی امن، سکون اور ترقی ممکن ہے۔

کنفیوشس نے دو ہزار پانچ سو سال پہلے جو باتیں کہیں، وہ آج بھی اتنی ہی مؤثر ہیں جتنی اس کے زمانے میں تھیں۔ اگر ہم اس کے افکار کو صرف پڑھنے تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی زندگی میں عملی طور پر اپنائیں، تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ معاشرہ بھی ایک پرامن اور مثبت سمت میں گامزن ہو سکتا ہے۔

سیاحتی عمارت ’ٹاور آف لندن“ جو کبھی ’ملکہ اور فلاسفر‘ کا قید خانہ تھا

گو کہ کنفیوشس جیسے مفکرین کے انسانیت سے بھرپور اخلاق، نظم، اور علم کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اگر ہم تاریخِ انسانی میں کامل ترین رہنما کی تلاش کریں، تو وہ ذاتِ اقدس صرف اور صرف ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہے، جنہوں نے ہمیں نہ صرف بلند ترین اخلاق سکھائے بلکہ اُن اصولوں کو اپنی عملی زندگی سے واضح بھی کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے دانائی، حلم، صبر، رحم، عدل اور محبت کو عملی زندگی میں نافذ کرکے انسانیت کے لیے ایک کامل ضابطۂ حیات عطا کیا۔

آپ ﷺ کی تعلیمات آج بھی زندگی کے ہر پہلو کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں، چاہے وہ فرد کی تربیت ہو، خاندان کی بنیاد ہو، یا معاشرے میں عدل و مساوات قائم کرنا ہو۔ ہمارے لیے کامل نمونہ، سب سے بہترین رہنما اور حقیقی روشنی کا سرچشمہ صرف سیرتِ محمدی ﷺ ہے۔

Similar Posts