کراچی کی ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار کے سنسنی خیز واقعے پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سنگین غفلت قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زلزلے کے باعث قیدیوں میں گھبراہٹ ضرور ہوئی تھی، تاہم اس صورتحال میں قیدیوں کو بیرکس سے نکالنا سراسر غلط فیصلہ تھا جس کے سنگین نتائج سامنے آئے۔
مراد علی شاہ نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ملیر جیل میں اس وقت 6 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق 216 قیدی جیل سے فرار ہوئے جن میں سے کئی کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ واقعے میں ایک قیدی کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ جیل حکام کی جانب سے قیدیوں کو بیرکس سے باہر نکالنے کا اقدام غیر ذمہ دارانہ تھا اور اس غفلت کے مرتکب اہلکاروں کو ہر صورت سزا دی جائے گی۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جیلوں میں سیکیورٹی کے انتظامات ازسرنو دیکھے جا رہے ہیں اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس افسوسناک واقعے کو ہرگز نظرانداز نہیں کرے گی، اور نہ ہی قیدیوں کی سیکیورٹی کو معمولی سمجھا جا سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ فرار ہونے والے تمام قیدیوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
کراچی میں منگل کی صبح اُس وقت ہلچل مچ گئی جب ملیر جیل سے اچانک سیکڑوں قیدی فرار ہو گئے۔ جیل میں اچانک زلزلے کے جھٹکوں کے بعد قیدیوں نے شورش برپا کی، گولیاں چل گئیں، اور قیدی دیواریں پھلانگ کر قریبی آبادیوں میں جا نکلے۔ پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اب تک 80 سے زائد قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے، تاہم 135 سے زائد تاحال لاپتہ ہیں۔
واقعے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک قیدی مارا گیا جبکہ تین زخمی ہو گئے۔ ایف سی کے تین اہلکاروں سمیت پانچ سیکیورٹی اہلکار بھی شدید زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کے مطابق صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے اور جیل اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں نے زلزلے کے بہانے سے بیرکس سے باہر نکلنے کا موقع بنایا، تاہم کسی بھی خطرناک مجرم کے فرار ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔
کراچی میں زلزلوں کی لہر معمہ بن گئی، 24 گھنٹوں میں 10 جھٹکے
ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے کہا کہ ’میں نے خود جائے وقوعہ کا دورہ کیا، خوش قسمتی سے کوئی بڑی تباہی نہیں ہوئی، اور سب قیدی زیادہ تر چھوٹے جرائم میں ملوث تھے۔‘
صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے ملیر جیل کا ہنگامی دورہ کیا، جہاں ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جیل کی دیوار نہیں توڑی گئی بلکہ قیدیوں نے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھایا۔ اُن کے مطابق 800 سے زائد قیدی بیرکس سے باہر آ گئے تھے۔
ضیاء لنجار نے واضح کیا کہ فرار قیدیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور انہیں جلد دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔
وزیر جیل خانہ جات علی حسن زرداری نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اور ڈی آئی جی جیل سے مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پولیس، ایف سی، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملیر جیل اور اطراف کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر رکھا ہے، جبکہ بعض علاقوں میں ریسکیو آپریشن بھی جاری ہے۔
دوسری جانب زلزلے کے حوالے سے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں گزشتہ رات 12 بج کر 53 منٹ پر بھی 3 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس کا مرکز ڈی ایچ اے کے مشرق میں تیس کلومیٹر دور تھا۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کراچی میں دسویں بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ دو روز تک مزید جھٹکے آنے کا امکان ہے تاہم کسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں۔
ملیر جیل کے اندر اور اطراف سیکیورٹی ہائی الرٹ
ملیر جیل سے قیدیوں کے فرار کے بعد صورتحال تاحال کشیدہ ہے، جیل کے اندر اور باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ایف سی، ایس ایس یو، رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری کو جیل کے اطراف تعینات کر دیا گیا ہے، جبکہ جیل حکام نے قیدیوں سے اہل خانہ کی ملاقات پر بھی آج مکمل پابندی لگا دی ہے۔
جیل حکام کے مطابق آج کسی بھی قیدی کو اس کے گھر والوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر جیل کے باہر ملاقاتیوں کا رش لگ گیا، کئی افراد اپنے پیاروں سے ملنے کی امید لیے جیل کے باہر پریشان کھڑے نظر آئے۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 80 سے زائد قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ 135 سے زائد قیدی اب بھی مفرور ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق مفرور قیدیوں کے ناموں کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے۔