بولیویا میں ایندھن کا بحران شدت اختیار کر گیا، ملک بھر میں مظاہرے، فوجی کارروائی کا انتباہ

0 minutes, 0 seconds Read

جنوبی امریکی ملک بولیویا اس وقت شدید ایندھن کے بحران کا شکار ہے جس کے باعث لاپاز سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ مظاہروں میں کسانوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی، جنہوں نے سڑکوں پر ٹائر جلا کر راستے بند کر دیے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قلت نے ان کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دیا ہے اور زرعی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ کسانوں کا دعویٰ ہے کہ فصلوں کی بروقت کاشت اور پانی کی ترسیل ممکن نہیں رہی، جس سے زراعت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

ماہرین کے مطابق بولیویا میں جاری اس بحران کی بنیادی وجوہات میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی اور گیس کی پیداوار میں گراوٹ شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے فوری اقدامات نہ کیے جانے پر عوامی غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔

ایندھن کی قلت سے پیدا ہونے والی اس سنگین صورتحال نے بولیویا کی معیشت اور روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اگر حالات یوں ہی رہے تو ملک میں سماجی بے چینی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

سابق صدر مورالیس کے حامیوں کے احتجاج پر فوجی کارروائی کا انتباہ

دوسری جانب بولیویا میں سیاسی کشیدگی خطرناک حدوں کو چھونے لگی ہے۔ وزیر دفاع ایڈمنڈو نوویو نے اگست 2025 کے انتخابات سے قبل جمہوری استحکام کے تحفظ کے لیے ممکنہ فوجی کارروائی کا انتباہ جاری کیا ہے۔ یہ بیان سابق صدر ایوو مورالیس کے حامیوں کے احتجاج میں شدت آنے کے بعد سامنے آیا ہے، جو ان کی صدارتی امیدوار کے طور پر واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں، حالانکہ آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔

احتجاجی مظاہرے اس وقت پُرتشدد ہوگئے جب عدالت نے 2023 کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے مورالیس کو نااہل قرار دے دیا۔ پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ مظاہرین نے سڑکیں بند کر دیں اور الیکشن دفاتر پر دھاوا بولا۔

بحران کی جڑیں حکمران جماعت ”موومنٹ فار سوشلزم“ (MAS) میں شدید اندرونی تقسیم میں پیوستہ ہیں۔ ایوو مورالیس، جو 2006 سے 2019 تک صدر رہ چکے ہیں، چوتھی بار صدر بننے کے خواہشمند ہیں، جبکہ موجودہ صدر لوئس آرسے—جو کبھی ان کے وزیر خزانہ تھے—معاشی تباہی سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔

ملک کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے۔ قدرتی گیس سے حاصل ہونے والی آمدن میں 2020 سے اب تک 34 فیصد کمی آ چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے گر کر دو ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں، اور افراطِ زر 8.82 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ عوام ایندھن کی قلت، ڈالر کی کمی، اور بڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں۔ ملک گیر سطح پر ٹرک یونینز اور کاروباری تنظیمیں بھی احتجاج کی تیاری کر رہی ہیں۔

جون 2024 میں جنرل خوان ہوزے زونیگا کی قیادت میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت نے فوج کے اندرونی اختلافات کو بھی آشکار کر دیا۔ اس وقت فوج نے چند گھنٹوں کے لیے لاپاز کے سرکاری چوک پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم اندرونی و بیرونی دباؤ کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا۔ ایوو مورالیس نے اس بغاوت کو صدر آرسے کی ”مقبولیت بڑھانے کی سازش“ قرار دیا، جبکہ جنرل زونیگا کا دعویٰ تھا کہ غیر ملکی قوتیں بولیویا کے لیتھیم اور گیس کے ذخائر پر قبضہ چاہتی ہیں۔

اقتصادی بحران کے باعث ہجرت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیرو اور چلی کی سرحدوں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں، جبکہ سرحدی علاقوں میں 70 فیصد کاروبار بند ہو چکے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مطابق بولیویا کی جی ڈی پی میں شرحِ نمو 2024 میں صرف 2.1 فیصد رہی، جبکہ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری 2020 کے مقابلے میں 67 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔

ان تمام حالات میں بولیویا کی کمزور جمہوریت شدید خطرے میں ہے۔ حکومت ایک مشکل دوراہے پر کھڑی ہے: یا تو انتخابات کے تحفظ کے لیے فوج کو میدان میں اتارا جائے یا مکمل ادارہ جاتی تباہی کا سامنا کیا جائے۔ جب کہ حکمران جماعت اندرونی خلفشار کا شکار ہے، ایوو مورالیس دیہی علاقوں میں اپنی عوامی حمایت کو متحرک کر رہے ہیں، اور ملک کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

Similar Posts