”مذہب نہیں، وردی مقدم ہے“، دہلی ہائیکورٹ کا فوجی افسر کی برطرفی کا فیصلہ برقرار

0 minutes, 0 seconds Read

دہلی ہائی کورٹ نے ایک مسیحی فوجی افسر کی خدمات ختم کیے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج کو مذہب نہیں بلکہ وردی متحد کرتی ہے۔ مذکورہ فوجی افسر نے اپنی برطرفی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

لیفٹیننٹ رینک کے ایک فوجی افسر نے اپنی برطرفی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ مذکورہ افسر اسکواڈرن میں ٹروپ لیڈر کے طور پر تعینات تھا اور 3 مارچ 2021 کو اسے پنشن اور گریجویٹی کے بغیر برطرف کیا گیا تھا۔

عدالت نے قرار دیا کہ افسر نے اپنے سینئر کے قانونی حکم کی نافرمانی کی، جو کہ آرمی ایکٹ کے تحت جرم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ معاملہ مذہبی آزادی کا نہیں بلکہ ایک جائز فوجی حکم کی تعمیل کا ہے۔

عدالت کے مطابق افسر سے کہا گیا تھا کہ وہ مذہبی پریڈز میں مکمل طور پر شرکت کرے، یہاں تک کہ عبادت گاہ کے مرکزی حصے میں بھی جائے، تاکہ جوانوں کا حوصلہ بلند کیا جا سکے۔ تاہم، افسر نے مذہب کی بنیاد پر اس حکم کی تعمیل سے انکار کیا، جو کہ بد نظمی تصور کی گئی۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ اس کی رجمنٹ میں صرف مندر اور گردوارہ موجود ہیں، اور چونکہ وہ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اسے عبادت گاہ کے اندر نہ جانے کی اجازت دی جائے۔ فوجی حکام نے بتایا کہ افسر کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ چرچ کے پادری نے بھی کہا کہ اس کے فرائض اس کے عقیدے کے خلاف نہیں، مگر افسر نے انکار جاری رکھا۔

عدالت نے کہا کہ مسلح افواج مختلف مذاہب، ذاتوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہیں، جنہیں مذہب نہیں بلکہ وردی متحد کرتی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ افسر کا رویہ فوج کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھا اور اس کی برطرفی جائز ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ چونکہ معاملہ فوج کے سیکولر ڈھانچے اور جوانوں کے حوصلے سے متعلق تھا، اس لیے کورٹ مارشل مناسب نہیں تھا۔

عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سول افراد کو یہ فیصلہ سخت لگ سکتا ہے، مگر فوجی نظم و ضبط کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اور درخواست گزار کی برطرفی میں مداخلت کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ یوں یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔

Similar Posts