میرے شہر سے خوبصورت تتلیاں کہاں گئیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

پاکستان کا خوبصورت شہر کراچی جہاں چند برس پہلے جا بجا باغات اور درختوں کے جھرمٹ میں رنگ برنگی تتلیاں اڑتی نظر آتی تھیں۔ نجانے وہ دن کہاں گئے اب ہر سو دھواں ، دھول ، گرد اور کنکریٹ کی بڑی بڑی خوبصورتی سے بنی عمارتیں دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن تازہ فضا میں سانس لینے کے لیئے ہر سو جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے۔

یہ ہے شہر قائد، جہاں ماحولیاتی آلودگی نے ڈیرے جما لیئے ہیں۔ اس آلودگی کی بڑی وجہ درختوں کی کٹائی کو گردانہ جاتا ہے۔ جا بجا کچرے کے ڈھیر اور اکثر اوقات اس ہی جلے ہوئے کچرے سے اٹھتا دھواں فضائی آلودگی میں اضافہ ،کرتا جا رہا ہے۔

ماہرین ماحولیات ہر سال ماحولیات کے عالمی دن پر سر جوڑ کر بیٹھتے ضرور ہیں لیکن اس کے سدباب پر صرف گفتگو کی حد تک محدود ر ہ جاتے ہیں، تاہم عمل ندارد اور ہر سال کی نسبت آنے والے سالوں میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

فضائی آلودگی کی اہم وجوہات میں انڈسٹریز اور ٹریفک کا دھواں، پلاسٹک بیگ کا استعمال ، سالڈ ویسٹ کا جلنا اور درختوں کی کمی شامل ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث پاکستان میں بارشوں کا کم ہونا ایک بڑا مسئلہ گردانا جاتا ہے جس کے باعث فصلیں شدید متاثر ہیں ۔ جبکہ شدید گرمی، ہیٹ اسٹروک کا بار بار آنا، سرد موسم کا کم دورانیہ، اور بر وقت بارشیں اور سیلاب مزید تباہی کی جانب گامزن کر رہا ہے۔

دوسری جانب روزمرہ زندگی میں عام طور پر استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگ نہ صرف ڈرینج سسٹم اور سمندری حیات کے لیئے نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ جلتے کچرے کے ساتھ ان سے اٹھتا دھواں سانس کی تکالیف کو تیزی سے جنم دیتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے جراثیم سانس کی نالیوں میں ایسے پارٹیکلز بناتے ہیں جو تیزی سے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس کے باعث سانس ، دل ، پھیپھڑوں ، بلڈ پریشر اور برین ہیمرج جیسی بیماریا ں سر فہرست ہیں۔

عالمی ماحولیاتی دن کی مناسبت سے ماہرین کا کہنا ہے فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال بڑھایا جائے جبکہ ایسے درختوں کی پیداوار کی جائے جس میں انسانی زندگی کے لیئے فوائد بے شمار ہوں۔

جیسے کراچی میں بڑی تعداد میں لگائے گئے کونو کارپس کی جگہ نیم اور برگد کے درخت لگائے جائیں جن میں کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرنے اور آکسیجن کے اخراج کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ انڈسٹریز کو زیادہ سے زیادہ سولر انرجی پر منتقل کیا جائے تاکہ فوسل فیول کا استعمال کم سے کم کیا جا سکے۔

فیول سے چلنے والی گاڑیوں کی جگہ الیکٹرک وہیکل بھی بہترین نعم البدل ہے جبکہ پلاسٹک بیگز کی جگہ کپڑے اور کاغذ کے بیگز کا استعمال، پلاسٹک سے بنی پانی کی بوتلوں کی جگہ پائیدار مٹیریل کا استعمال بھی آلودگی کم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

Similar Posts