ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے میں سب سے خطرناک اور تباہ کن ہتھیار کے طور پر ”ایم پی آر 500“ بم کا استعمال کیا گیا، جس نے ایرانی دفاعی تنصیبات، بنکرز اور جوہری بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی میڈیا اور عسکری ماہرین کے مطابق، یہ بم نہ صرف اپنی تباہ کن صلاحیتوں کے باعث خطرناک ہے بلکہ جدید جنگی حکمتِ عملی میں اسے ایک ”گیم چینجر“ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایم پی آر 500 ایک ہائی پریسیژن بم ہے جس کا وزن 227 کلوگرام ہے۔ اسے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے، تاکہ انتہائی محفوظ اور زیرِ زمین تنصیبات کو بھی تباہ کیا جا سکے۔ یہ بم ایک میٹر موٹی کنکریٹ، یا چار تہہ والی دیواروں اور بنکروں کو چیر کر اندر موجود کمانڈ سینٹرز، جوہری لیبارٹریز یا زیر زمین خفیہ اڈوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی ذرائع کے مطابق، حالیہ حملے میں ایران کے جوہری انفرااسٹرکچر کے حساس مقامات کو اسی بم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ ایم پی آر 500 نہ صرف گہرائی میں مار کرتا ہے بلکہ اس میں نصب 26,000 دھاتی ٹکڑے دھماکے کے وقت 2200 مربع میٹر رقبے پر بکھر جاتے ہیں، جو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ بم ایک عام بم نہیں، بلکہ ایک مکمل جنگی نظام ہے جو ہزاروں فٹ بلندی سے فائر کیے جانے کے باوجود اپنے ہدف پر انتہائی درستگی سے نشانہ لگا سکتا ہے۔ اس کی رینج کئی سو کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، جس کی بدولت اسرائیل جیسے ممالک دور رہتے ہوئے بھی دشمن کے گہرائی میں موجود اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔
فوجی تجزیہ کاروں کے مطابق ایم پی آر 500 کا استعمال اسرائیل کی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں وہ ایران کی جوہری صلاحیت کو روکتے ہوئے اس کی دفاعی قوت کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ اس مہلک بم کی تباہی نے ایران کی سیکیورٹی اور انفرااسٹرکچر پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ میں جنگی توازن مزید نازک ہو چکا ہے۔