ایران نے تہران سے صرف سات منٹ کے اندر ہی تل ابیب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایران نے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اپنے جدید ترین بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کیا۔ ایرانی حملے میں ”عماد“، ”غدر“ اور ”خیبر شکن“ جیسے تباہ کن میزائل شامل تھے، جنہوں نے چار سو سیکنڈز کے اندر اسرائیلی اہداف کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔
ایرانی خبررساں اداروں کے مطابق ایران کے پاس نو اقسام کے بیلسٹک میزائل موجود ہیں جن کی رفتار 6125 کلومیٹر فی گھنٹہ سے 17151 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہے۔ ان میں سیجل، خیبر، عماد، شہاب، غدر، پایہ، فتح، خیبر شکن اور حج قاسم شامل ہیں۔
غدر میزائل سنہ 2005 میں منظر عام پر آیا اور اس کی تین اقسام ہیں:
- غدر ایس، جو 1350 کلومیٹر رینج رکھتا ہے
- غدر ایچ، 1650 کلومیٹر رینج کا حامل
- غدر ایف، 1950 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
عماد میزائل، ایران کا پہلا گائیڈڈ بیلسٹک میزائل ہے جو مائع ایندھن سے چلتا ہے۔ اس کا وزن 1750 کلوگرام اور رینج 1700 کلومیٹر ہے۔
خیبر شکن درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے جو جدید فضائی دفاعی نظام کی حدود میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے دو ورژن خیبر شکن ون اور ٹو، ممکنہ طور پر 1450 کلومیٹر تک وار ہیڈز لے جا سکتے ہیں۔ اسے خاص طور پر اسٹریٹجک حملوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ایران نے حملے میں بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ ساتھ اپنے مہلک ترین ڈرونز کا بھی استعمال کیا، جن میں شاہد 129 اور شاہد 136 شامل ہیں۔
شاہد 129، امریکی MQ-1 پریڈیٹر کے طرز پر تیار کیا گیا، 24 گھنٹے مسلسل پرواز اور 1700 کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ چار ”صُدَید“ گائیڈڈ میزائل لے جا سکتا ہے اور اس میں تھرمل امیجنگ، جدید کمیونی کیشن اور ریموٹ کنٹرول سسٹم موجود ہے۔ یہ الیکٹرانک جنگی ماحول میں بھی مؤثر کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شاہد 136 ایک خودکش ڈرون ہے جو صرف ایک بار استعمال کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اپنے ہدف سے ٹکرا کر دھماکا کرتا ہے اور اس میں 20 سے 50 کلوگرام دھماکا خیز مواد نصب کیا جا سکتا ہے۔ جی پی ایس گائیڈنس اور بعض ورژنز میں کیمرا بھی موجود ہوتا ہے، جبکہ کم بلندی اور سست رفتار اسے ریڈار سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔
ایران کے اس حملے نے اسرائیلی دفاعی صلاحیتوں پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جبکہ خطے میں کشیدگی کے بادل مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملہ اسرائیل کے لیے ایک ”پیغام“ بھی ہے اور ایران کی عسکری طاقت کا واضح اظہار بھی۔