سینیٹ میں بجٹ اجلاس کے دوران ایوان بالا کی سنجیدگی اور حکومتی و اپوزیشن کی عدم دلچسپی کھل کر سامنے آ گئی۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ سے متعلق بحث اور سفارشات کا عمل جاری رہا، مگر ایوان میں صرف پانچ اراکین موجود تھے۔ حکومتی بینچوں پر صرف تین اور اپوزیشن بینچوں پر دو سینیٹرز موجود تھے۔ اجلاس میں ایک بھی وفاقی وزیر شریک نہ ہوا جبکہ اپوزیشن لیڈر سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما بھی غیر حاضر رہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے کو مسلح افراد کے روکنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مولانا ہمیشہ ریاست اور ریاستی مفاد کی بات کرتے ہیں، ایسے واقعات اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ فائلر اور نان فائلر کے فرق کو انھوں نے کافر و مسلمان کے فرق سے تشبیہ دی۔
سینیٹر محسن عزیز نے بجٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دو جماعتوں نے چالیس سال حکومت کی اور اب اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سال کا تذکرہ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں ایکسپورٹ ریکارڈ سطح پر گئی اور ڈالر 170 کا تھا، مگر موجودہ حکومت نے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہوں نے صحت و تعلیم کے شعبے کو نظرانداز کیے جانے پر بھی کڑی تنقید کی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ بجٹ عوام دوست نہیں، اور وزیرخزانہ کو مزدور کے ساتھ ایک دن گزارنے کی دعوت دی۔ انہوں نے بلاول بھٹو کی خارجہ پالیسی پر بھی تعریف کی۔
سینیٹر عامر ولی الدین چشتی نے ایف بی آر کو ملنے والے اضافی اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ بوجھ کراچی پر پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ نہ وفاق اور نہ ہی صوبہ کراچی کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ انہوں نے کراچی کیلئے صرف 15 ارب روپے کا بجٹ ناکافی قرار دیا۔
سینیٹر ضمیر حسین گھومرو نے کہا کہ وفاق کے پاس بجٹ زیادہ ہے، مگر صوبوں سے تفریق برتی گئی ہے۔ انھوں نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور کے پی کو ہائیڈل منافع دینے کا مشورہ دیا۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ پاکستان اپنی معاشی خودمختاری کھو چکا ہے، بجٹ میں عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ ان کے مطابق بجٹ نے 60 فیصد پاکستانیوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے جبکہ وزیروں کی تنخواہیں 600 فیصد بڑھا دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بھی اس اضافے کا علم نہیں۔
سینیٹر عون عباس بپی نے اعجاز چوہدری کی جیل میں موجودگی پر سوال اٹھایا اور پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی یاددہانی کرائی۔ ان کے مطابق کسان اور عوام کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، چالیس لاکھ ٹن گندم رُل رہی ہے، اور زراعت کی شرح نمو 0.6 فیصد ہونا شرمناک ہے۔
سینیٹر بلال احمد نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف مراعات یافتہ طبقے کیلئے سوچ رہے ہیں جبکہ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سکھر-حیدرآباد موٹروے کے لئے مختص 15 ارب روپے کو مذاق قرار دیا۔
جے یو آئی کے سینیٹر عبدالشکور نے خواتین کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی رقم کی بجائے آسان روزگار فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے سولر پینلز پر ٹیکس کو عوام دشمن اقدام قرار دیا اور ایوان میں غیرحاضر سینیٹرز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر نہیں آتے تو تنخواہ نہ لیں۔
اجلاس کے دوران ارکان نے وزیروں کی عدم شرکت، بجٹ کی غیرمنصفانہ تقسیم، اور عوامی مسائل سے چشم پوشی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اجلاس کا ماحول غیر رسمی اور مایوس کن رہا، جس نے بجٹ کی اہمیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔