سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور سابق چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد سعید نے آج نیوز کے پروگرام نیوز انسائیٹ ود عامر ضیا میں گفتگو کرتے ہوئے ایران-اسرائیل جنگ، علاقائی سیاست، اور امریکہ کے کردار پر تفصیلی تبصرہ کیا۔
خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو اور مودی نے اپنی اپنی عوام کو گمراہ کیا۔ دونوں ممالک نے بالآخر جنگ بندی کر لی، مگر ایسی صورتحال میں صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہی توازن لا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ دونوں کو لاجواب کر چکے تھے اور ان کا انداز مختلف تھا۔
سابق وزیر خارجہ کے مطابق امریکہ کبھی اسرائیل کو بیچ منجھدار میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا، جب کہ ایران کی بدنصیبی یہ رہی کہ وہ اس جنگ میں تنہا کھڑا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو امریکی پشت پناہی حاصل رہی، جب کہ ایران کو کوئی مضبوط اتحادی میسر نہ تھا۔
خورشید قصوری نے مزید کہا کہ اسرائیل نے جنگ صرف ٹی وی پر دیکھی ہے، اصل میں وہ نہتے فلسطینیوں پر چڑھائی کر کے واپسی کا عادی ہے۔ ایران کی جوہری صلاحیت اسرائیل کے لیے اصل خوف تھی، اسی لیے یہ معاملہ عالمی سطح پر حساس رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق بات چیت آئندہ ہونے کا امکان ہے۔
پروگرام میں شریک سابق چیف آف جنرل اسٹاف (ر) لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید نے کہا کہ جنگ خود ایک سیاسی سرگرمی ہوتی ہے اور اس میں گراؤنڈ فورسز کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔ ان کے مطابق ایران کا مقصد خود کو بچانا تھا، اور یہ ایک ہائی ٹیک بمقابلہ لو ٹیک جنگ تھی۔
جنرل (ر) محمد سعید نے کہا کہ اسرائیل میں دھماکوں نے عوام کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا، جبکہ ایران کا بنیادی انفرااسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کی اصل قیمت دونوں ممالک نے ادا کی اور یہ ایک انتہائی مہنگی جنگ ثابت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ایران کو اب اپنے گورننس سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دفاعی تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ڈیفنس سسٹم ناقابلِ تسخیر نہیں، اسے پینیٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔
امریکی ایئر بیس پر ایران کا حملہ ان کے مطابق کوئی بڑا سرپرائز نہیں تھا۔ بھارت کے لیے ان کا مشورہ تھا کہ وہ اس جنگ سے سبق سیکھے، کیونکہ آج کی جنگیں پہلے سے مختلف انداز سے لڑی جا رہی ہیں، اربن ایریاز اب ابتدائی اہداف بن چکے ہیں۔