دنیا میں پہلی بار ایک متنازعہ سائنسی منصوبے پر کام کا آغاز ہو چکا ہے جس کا مقصد انسانی زندگی کے بنیادی جینیاتی اجزاء کو مکمل طور پر مصنوعی طریقے سے تخلیق کرنا ہے۔ اس منصوبے کی مالی معاونت برطانیہ کے سب سے بڑے طبی فلاحی ادارے ”ویلکم ٹرسٹ“ نے ابتدائی طور پر 10 ملین پاؤنڈز کے ساتھ کی ہے۔
یہ تحقیق ماضی میں ”ڈیزائنر بیبیز“ یا مستقبل کی نسلوں پر ممکنہ خطرناک اثرات کے خدشات کے باعث ممنوع تصور کی جاتی تھی۔ تاہم اب اسے ناقابلِ علاج بیماریوں کے خلاف علاج کے نئے دروازے کھولنے کی امید کے تحت دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔
’سسٹم 0‘: کیا مصنوعی ذہانت ایک نئی سوچ تخلیق کر رہی ہے؟
کیمبرج کے ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بایولوجی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جولیئن سیل نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’یہ حیاتیاتی سائنس میں ایک دیوہیکل قدم ہے۔ ہم عمر رسیدگی کے دوران صحت مند زندگی، کم بیماریوں، اور دل، جگر و مدافعتی نظام کی مرمت کے لیے بیماری سے محفوظ خلیات تخلیق کرنے پر کام کر رہے ہیں۔‘
اس منصوبے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ Beyond GM نامی مہماتی گروپ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پیٹ تھامس نے خبردار کیا کہ تمام سائنس دان نیکی کے لیے کام نہیں کرتے۔ یہی ٹیکنالوجی نقصان، حتیٰ کہ حیاتیاتی جنگ کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔
میرے دو دو باپ، سائنس دانوں نے دو نروں سے چوہا تخلیق کرلیا
اسی طرح ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر بل ارنشا مصنوعی انسانی کروموسوم بنانے کے ماہر نے کہا: ’یہ جنّی بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ اگر کوئی ادارہ ضروری آلات حاصل کر لے تو ہم انہیں روک نہیں سکتے۔‘
اس منصوبے کا نام ”سنتھیٹک ہیومن جینوم پروجیکٹ“ ہے اور یہ انسانی ڈی این اے کو مکمل طور پر مصنوعی طور پر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ اس تحقیق میں انسانی ڈی این اے کے بڑے بلاکس بنائے جائیں گے، یہاں تک کہ مکمل کروموسوم تیار کیے جائیں گے۔
ویلکم سانگر انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر میتھیو ہرلز کے مطابق: ’یہ ہمیں ڈی این اے کے کام کرنے کو بہتر طور پر سمجھنے اور نئے نظریات کو آزمانے کا موقع دے گا۔‘
انسانی دماغی خلیات سے چلنے والا روبٹ تیار، مصنوعی ذہانت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
یہ تمام تحقیق تجرباتی سطح تک محدود رہے گی اور مصنوعی زندگی بنانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ لیکن ٹیکنالوجی سائنس دانوں کو انسانی نظام پر بے مثال کنٹرول دے سکتی ہے۔
ویلکم ٹرسٹ کے ڈاکٹر ٹام کولنز نے کہا کہ: ’اس منصوبے کو فنڈ دینے کا فیصلہ ”غور و فکر کے بعد“ کیا گیا۔ ہم نے یہ سوچا کہ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو کیا ہوگا؟ بہتر ہے کہ ہم یہ تحقیق ذمہ داری کے ساتھ کریں اور اخلاقی سوالات کا سامنا کھلے عام کریں۔‘
منصوبے کے ساتھ ایک سماجی تحقیقاتی پروگرام بھی چلایا جائے گا جس کی قیادت یونیورسٹی آف کینٹ کی پروفیسر جوئے زانگ کریں گی۔
انہوں نے کہا: ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ عوام، سماجی ماہرین اور متعلقہ افراد اس ٹیکنالوجی کو کیسے دیکھتے ہیں اور وہ کیا خدشات رکھتے ہیں۔‘