بلوچستان میں 24 فیصد اسکول غیر فعال، 12 ہزار سے زائد بنیادی سہولتوں سے محروم

0 minutes, 0 seconds Read

بلوچستان میں تعلیمی شعبے کی زبوں حالی ایک بار پھر سامنے آ گئی۔محکمہ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق صوبے کے 15 ہزار 268 اسکولوں میں سے 3 ہزار 692 اسکول مکمل طور پر غیرفعال ہیں، جبکہ ہزاروں اسکولوں کو بجلی، پانی، گیس اور بیت الخلا جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی جانب سے دی گئی تعلیمی ایمرجنسی کی پالیسی تاحال مؤثر ثابت نہ ہو سکی۔ زمینی حقائق حکومتی دعوؤں کے برعکس ہیں، جس سے لاکھوں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔

بلوچستان میں 24 فیصد اسکول غیرفعال ہیں اور 15 ہزار اسکولوں میں 10 لاکھ سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں، جن میں سے اکثریت کو نہ صرف تعلیمی سہولتوں بلکہ محفوظ تعلیمی ماحول سے بھی محرومی کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 135 اسکول صرف کاغذوں تک محدود ہیں جبکہ ایک ہزارسے زائد اسکول بغیرکسی وجہ کے بند ہیں۔ضلع پشین میں 252 اور خضدار میں 250 اسکول ،ضلع قلعہ سیف اللہ میں 180 اسکول بند ہیں۔

اسی طرح ایک ہزار800اسکول کی عمارت موجود نہیں ہی نہیں جبکہ 7ہزار500 اسکولز کی چار دیواری تک نہیں ہے۔12ہزار اسکولز بجلی،10ہزار پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔

صوبائی بجٹ میں 147 ارب تعلیم کیلئے مختص کیے گئے ہیں اور اساتذہ ودیگرعملے کی تنخواہوں کی مد میں37 کروڑ50لاکھ روپے ادا کی جاتی ہے اس کے باوجود تعلیمی نظام زبو حالی کا شکار ہے۔

ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سخت احتساب، فوری اصلاحات اور تعلیمی بجٹ کے مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جائے تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔

Similar Posts