سوات کے پرفضا مقام فضاگٹ میں پیش آنے والے دلخراش سانحے میں 18 سیاحوں میں سے 10 افراد سیلابی ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہو گئے، چار افراد کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ چار لاپتہ افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق برآمد ہونے والی لاشوں میں پانچ خواتین، دو بچے اور ایک مرد شامل ہیں۔ جاں بحق افراد کا تعلق سیالکوٹ اور مردان سے تھا۔
سوات انتظامیہ نے واقعے کے بعد رات گئے کارروائی کرتے ہوئے اس ہوٹل کو سیل کر دیا جہاں متاثرہ سیاحوں نے ناشتہ کیا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ اور شہریوں نے مزاحمت کی، جس پر علاقے میں شدید احتجاج کیا گیا۔
مظاہرین نے کہا کہ انتظامیہ کو حادثے سے قبل بارہا اطلاع دی گئی تھی، مگر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اب اپنی ناکامی چھپانے کے لیے کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے غفلت کے مرتکب چار سرکاری افسران کو معطل کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق مزید تحقیقات جاری ہیں اور غفلت ثابت ہونے پر مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔
مردان میں جاں بحق ہونے والے فرمان اور کمسن عشال کی نماز جنازہ نواں کلی رستم میں ادا کی گئی، جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جنازے کے دوران آہوں اور سسکیوں سے فضا سوگوار رہی۔
جاں بحق افراد کے رشتہ دار روح الامین نے بتایا کہ بچے دریائے کنارے جانے پر اصرار کر رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سیلابی ریلہ آیا اور سب کو گھیر لیا۔ ہم چند لوگ معجزانہ طور پر بچ گئے۔
دریائے سوات کی طغیانی کا شکار بنے ایک اور شخص کی لاش نکال لی گئی، تعداد 10 ہوگئی
ادھر سیالکوٹ میں بھی متاثرہ خاندان کے آٹھ افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ 41 سالہ روبینہ بی بی اور اس کی دو بیٹیوں کی نماز جنازہ ڈسکہ کلاں میں جبکہ 3 سالہ ایان اور 12 سالہ آئمہ کی نماز جنازہ سمبڑیال روڈ پر عیدگاہ میں ادا کی گئی۔ تین بہنوں اجوا، میرب اور مشال کی نماز جنازہ بھی ادا کر دی گئی۔
نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی، ہر آنکھ اشکبار تھی اور پورا علاقہ سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔
ریسکیو حکام کی جانب سے دریائے سوات میں لاپتہ افراد کی تلاش کا عمل جاری ہے، جبکہ لاشوں کو ایمبولینسز کے ذریعے آبائی علاقوں کو روانہ کر دیا گیا ہے۔