بلیک ہولز خلا میں موجود سب سے پراسرار اور حیران کن مظاہر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں، بلیک ہول ایک ایسا مقام ہے جہاں کششِ ثقل اتنی شدید ہوتی ہے کہ روشنی بھی اس کے دائرہ اثر سے بچ نہیں سکتی۔ سائنسدانوں نے بلیک ہولز کے متعلق کئی دہائیوں سے تحقیق جاری رکھی ہوئی ہے، لیکن حال ہی میں ایک انتہائی غیر معمولی واقعے نے سائنس کی دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
نومبر 2023 میں سائنسدانوں کو خلا میں ہونے والے ایک زبردست بلیک ہول ٹکراؤ کے سگنلز موصول ہوئے، جنہیں زمین پر واشنگٹن اور لوزیانا میں موجود ’لیزر انٹرفیرو میٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری‘ (LIGO) نامی حساس ڈیٹیکٹرز نے محسوس کیا۔ یہ سگنلز 10 ارب نوری سال کے فاصلے سے زمین تک پہنچے اور صرف ایک دسویں سیکنڈ کے لیے اسپیس ٹائم میں جھٹکا محسوس کیا گیا، جسے ’رنگ ڈاؤن فیز‘ کہا جاتا ہے، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دو بلیک ہول آپس میں مدغم ہو کر ایک نیا بلیک ہول تشکیل دیتے ہیں۔
کیا ”بلیک ہولز“ دوسری کائنات میں پہنچنے کا راستہ ہے؟
اس مشاہدے سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں بلیک ہولز سورج کے مقابلے میں بالترتیب 103 اور 137 گنا زیادہ بڑے تھے، اور حیران کن طور پر یہ زمین سے 4 لاکھ گنا زیادہ تیزی سے گھوم رہے تھے۔ اس ٹکراؤ سے جو نیا بلیک ہول وجود میں آیا، وہ سورج سے تقریباً 265 گنا زیادہ بڑا ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں کشش ثقل کی لہروں کے ذریعے دریافت کیا گیا سب سے بڑا بلیک ہول ہے۔
کارڈف یونیورسٹی کے ’گریویٹی ایکسپلوریشن انسٹیٹیوٹ‘ کے پروفیسر مارک ہینم نے اس دریافت کو کائنات میں اب تک کا سب سے شدید توانائی کا حامل مظہر قرار دیا، جس کے اثرات زمین تک پہنچنے پر انتہائی مدہم تھے، مگر ان کا سائنسی اثر بے پناہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ انتہائی شدید واقعات ہوتے ہیں جو ہم کائنات میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن جب ان کے سگنلز زمین تک پہنچتے ہیں تو یہ وہ سب سے کمزور چیزیں ہوتی ہیں جنہیں ہم ناپ سکتے ہیں۔‘
بلیک ہول کی خوراک بنتا سورج پہلی بار کیمرے میں قید، خوفناک منظر
ماہرین کے مطابق یہ دونوں بلیک ہول ممکنہ طور پر پہلے سے موجود بلیک ہولز کے ادغام سے بنے تھے، اور اسی وجہ سے ان کا حجم اور گھماؤ غیر معمولی حد تک بڑھ چکا تھا۔ یہ رجحان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات میں بلیک ہولز کا ارتقاء محض ایک مرحلہ نہیں بلکہ مسلسل مدغم ہونے کا عمل بھی ہوسکتا ہے۔
اب تک سائنسدان کششِ ثقل کی لہروں کی مدد سے تقریباً 300 بلیک ہولز کے انضمام کا مشاہدہ کر چکے ہیں، مگر یہ حالیہ دریافت ایک نئی حد طے کرتی ہے۔ اس سے پہلے سب سے بڑا مشاہدہ شدہ بلیک ہول 140 گنا سورج کے برابر تھا، جبکہ اب یہ تعداد 265 گنا تک پہنچ چکی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی لہروں کا مطالعہ ہمیں کائنات کو دیکھنے کا ایک بالکل نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے قبل ہم صرف روشنی، ریڈیو ویوز یا انفرا ریڈ سے خلا کا مشاہدہ کر سکتے تھے، مگر اب ہم ان لہروں کی مدد سے وہ مظاہر دیکھ سکتے ہیں جو روشنی کے دائرے سے باہر تھے۔
عظیم الجثہ بلیک ہول 20 سال بعد نیند سے جاگ اٹھا، ماہرین فلکیات میں ہلچل
آنے والے 10 سے 15 سالوں میں مزید حساس ڈیٹیکٹرز کی تیاری کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، جو نہ صرف تمام بلیک ہولز کے انضمامی واقعات کو دیکھ سکیں گے بلکہ ممکن ہے کہ ہمیں ایسی کائناتی حقیقتوں کا بھی پتا چل جائے جن کا تصور ہم نے کبھی نہ کیا ہو۔